ٹیسٹ ٹیوب بچوں کی پیدائش جائز، پاکستانی شرعی عدالت کا فیصلہ
22 فروری 2017پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد سے بدھ بائیس فروری کو ملنے والی نیوز ایجنسی پی ٹی آئی کی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ ٹیسٹ ٹیوب طریقہء کار سے بچوں کی پیدائش اگرچہ ایک پیچیدہ طبی عمل ہے لیکن یہ بہت سے بے اولاد پاکستانی جوڑوں کے لیے اس لیے بھی ایک اچھی خبر ہے کہ اب انہیں اس طریقہء کار پر عمل اور اپنی اولاد کی خواہش کو پورا کرتے ہوئے اخلاقی اور مذہبی حوالوں سے بھی اطمینان ہو گا کہ انہوں نے کوئی ایسا کام نہیں کیا جو جائز نہ ہو۔
وفاقی شرعی عدالت کے منگل اکیس فروری کو سنائے گئے ایک فیصلے کے مطابق، ’’اگر بچے کی پیدائش کی وجہ بننے والا سپرم اس کے قانونی والد ہی کا ہو اور بیضہ اس کی والدہ کا، جو متعلقہ مرد کی بیوی ہو، تو ایسی صورت میں طبی طریقہء کار سے مصنوعی حمل ٹھہرانے کے بعد اگر ایمبریو دوبارہ اس بچے کی حقیقی والدہ ہی کے رحم میں رکھا جائے، تو یہ طبی عمل مذہبی حوالے سے بھی قانون کے مطابق اور جائز ہو گا۔‘‘
خبر رساں ادارے پی ٹی آئی نے پاکستانی میڈیا میں شائع ہونے والی مرد اور عورت کے تولیدی خلیات کے مصنوعی ذرائع سے ملاپ سے متعلق وفاقی شرعی عدالت کے 22 صفحات پر مشتمل اس فیصلے کی تفصیلات میں لکھا ہے کہ عدالت کے مطابق اگر متعلقہ مرد اور عورت آپس میں شادی شدہ ہوں اور مصنوعی حمل یا IVF نامی طبی عمل کے لیے انہی کے تولیدی خلیات استعمال کیے جائیں تو یہ عمل نہ تو غیر قانونی ہو گا اور نہ ہی قرآن و سنت کے احکامات کے منافی۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے، ’’اس عمل کے جائز ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اگر متعلقہ مرد اور خاتون کو کسی طبی مدد کی ضرورت نہ پڑے تو بھی وہ اسی طرح کسی بچے کے والدین بن سکتے ہیں، جیسے کہ ٹیسٹ ٹیوب طریقہء کار کی مدد سے پیدا ہونے والے بچے کے حقیقی والدین کے طور پر۔ ’’ایسی صورت میں پیدا ہونے والا بچہ بھی ان والدین کی قانونی اور مذہبی طور پر جائز اولاد اور وارث ہو گا۔‘‘
ساتھ ہی وفاقی شرعی عدالت نے یہ بھی کہا کہ اگر ٹیسٹ ٹیوب بے بی کی پیدائش کے لیے بیضہ اور سپرم میں سے دونوں یا کوئی ایک بھی متعلقہ جوڑے کے علاوہ کسی دوسرے مرد یا عورت کا ہو، تو ایسی صورت میں کسی ٹیسٹ ٹیوب بچے کی پیدائش اخلاقی طور پر ’غلط، ناجائز اور غیر اسلامی‘ ہو گی۔
اس سے قبل 2013ء میں پاکستان کی اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی کہا تھا کہ اسلام میں ٹیسٹ ٹیوب بچوں کی پیدائش کی اجازت تو ہے لیکن چند مخصوص شرائط پوری کرنے کے بعد۔
پی ٹی آئی نے پاکستانی طبی ماہرین کے حوالے سے لکھا ہے کہ پاکستان میں شادی شدہ جوڑوں میں بے اولاد رہنے کی شرح 10 فیصد تک ہے لیکن ان میں سے بھی 90 فیصد واقعات میں طبی مدد لینے سے ایسے جوڑے بھی والدین بن سکتے ہیں۔
ڈاکٹر مظہر احمد نامی ایک پاکستانی ڈاکٹر کے مطابق ہر دس بے اولاد پاکستانی جوڑوں میں سے بھی صرف ایک کیس ایسا ہوتا ہے، جس میں طبی ماہرین بھی متعلقہ شادی شدہ جوڑے کی والدین بننے میں کوئی مدد نہیں کر سکتے۔