ٹیم میں آنے کے لیے تین سیزن تک کارکردگی لازمی، راشد لطیف
3 مارچ 2014راشد لطیف کہتے ہیں کہ کپتان مصباح الحق کے ساتھ ان کی اچھی ہم آہنگی ہے اور سلیکشن میں کپتان اور کوچ کی رائے لی جائے گی تاہم انہی کھلاڑیوں کو فوقیت دی جائے گی جو ملک کے لیے بہتر ہوں گے۔ راشد کے بقول سب کو اگلے چھ ماہ میں پاکستان کرکٹ کے سسٹم میں تبدیلی نظر آئے گی ۔
کراچی میں ڈی ڈبلیو کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں راشد لطیف نے کہا کہ ڈومیسٹک کرکٹ سے انٹرنیشل معیار کے کھلاڑی ڈھونڈنا پڑیں گے مگر ڈومیسٹک کرکٹ کا اپنا معیار ماضی کے مقابلے میں گرا ہے۔ راشد لطیف کے بقول، ’’وکٹوں کا معیار بھی گرا ہے۔ ہمارے پاس اس وقت صرف اسٹروک پلیئرز ہیں، بھارت کی طرح ہمیں بھی ایسی وکٹیں تیار کرنا ہوں گی جہاں بیٹسمین پورا دن بیٹنگ کرسکیں۔‘‘
راشد کے بقول پورٹ قاسم کرکٹ ٹیم کی دو سالہ کوچنگ کی وجہ سے ڈومیسٹک کرکٹ کے تمام سرکردہ کھلاڑی ان کی نظر میں ہیں جس کا انہیں فائدہ ہے۔ راشد کے مطابق کوشش ہوگی کہ سلیکشن کمیٹی میں بھی ایسے لوگ آئیں جو جوان اور توانا ہوں اور ڈومیسٹک کرکٹ سے وابستہ رہے ہوں۔
سابق پاکستانی کپتان راشد لطیف کہتے ہیں کہ پاکستان کرکٹ کو پٹری پر واپس لانے کے لیے بورڈ حکام کا مثبت رویہ دیکھ کرانہوں نے پی سی بی میں کام کرنے کی پیشکش قبول کی۔
1994ء میں سب سے پہلے میچ فکسنگ کا بھانڈا پھوڑنے کے بعد سے راشد لطیف پاکستانی کرکٹ میں اینٹی اسٹیبلیشمنٹ سمجھے جاتے ہیں۔ انہیں نجم سیٹھی سمیت بورڈز کے کئی اعلیٰ عہدیداروں سے قانونی جنگیں بھی لڑنا پڑیں۔
راشد نے بتایا کہ قانونی جنگ لڑنا ان کا حق تھا: ’’ میں نے کرکٹ کی بہتری کے لیے ہر لڑائی لڑی۔ ڈی جی بننے پر اپنے محسن جاوید میانداد تک کو عدالت لےگیا۔ اب مجھے پاکستان کرکٹ بورڈ کے اندر رہ کر کھیل کے معاملات کی اصلاح کا موقع مل رہا ہے۔ ہم باہر بیٹھ کر بولتے تھے کہ پاکستان سپر لیگ ہونی چاہیے اگر بورڈ کے اندر رہ کر آواز اٹھائیں گے تو ہو سکتا سپر لیگ ہو جائے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ بڑا کارنامہ ہوگا۔ بورڈ کے اندر رہ کر کرکٹرز کے مسائل حل کرنے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔ کرکٹ جنون کا نام ہے اور اس کے لیے دن رات کام کروں گا۔ میں طویل المدتی منصوبوں پر یقین نہیں رکھتا چھ ماہ میں تبدیلی سب کو نظر آئے گی۔‘‘
راشد لطیف نے پاکستان کرکٹ بورڈ کی انتظامیہ میں نوے کے عشرے کے کرکٹرز کی شمولیت کو اچھا قدم قرار دیا۔ راشد کے بقول نوے کا عشرہ پاکستان کرکٹ کا سب سے سنہری دور تھا، ’’اسی دور میں ہم نے عالمی کپ جیتا۔ اس وقت کے تمام پندرہ کھلاڑی ورلڈ کلاس تھے اسی زمانے کے کرکٹرز کی خدمات حاصل کرنا ملکی کرکٹ کے لیے اچھا شگون ہے۔‘‘
راشد لطیف نے انکشاف کیا کہ انہیں قائل کرنے میں چیئرمین پی سی بی نجم سیٹھی کے علاوہ معین خان، باسط علی اور محمد اکرم کا ہاتھ ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے حکام کا مثبت رویہ دیکھ کر ہی پی سی بی جوائن کرنے کا فیصلہ کیا۔ راشد لطیف نے بتایا کہ وہ ایسے کھلاڑی پاکستان کرکٹ ٹیم کو دینا چاہتے ہیں جو اگلے پانچ برس تک ملک کی خدمت کر سکیں۔