پاک افغان تعلقات ،کابل اور اسلام آباد میں رابطے
1 اپریل 2009ان کانفرنسوں کا مقصد دونوں ملکوں کے درمیان پارلیمانی نمائندوں کی سطح پر بدگمانیوں اور عدم اعتماد اور وقتا فوقتا تناؤ کا سبب بننے والے امور پر تبادلہ خیال کرنا تھا۔
خاص طور پر 2001 کے بعد چند ماہ پہلے تک اس نوعیت کی مختلف کانفرنسیں مندوبین کے لئے ویزوں کی عدم فراہمی ایسے امور کے باعث یا تو منعقد نہ ہو سکیں یا پھر ان میں شرکت انتہائی کم رہی لیکن ساؤتھ ایشیاء فری میڈیا ایسوسی ایشن اور پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹوو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹریننگ کے زیر اہتمام دو کانفرنسیں اس لحاظ سے بھی خاصی بروقت تھیں کہ بدھ کے روز ترکی میں پاکستانی صدر آصف زرداری اور افغان صدرحامد کرزئی کے مابین تفصیلی ملاقات ہوئی جو دو طرفہ تعلقات میں بڑی پیش رفت کے مترادف ہے کیونکہ اس سے پہلے جنرل پرویز مشرف اور صدر کرزئی کے تعلقات سرد مہری اور تناؤ کا شکار رہے یہی وجہ ہے کہ اسلام آباد کا دورہ کرنے والے افغان ارکان پارلیمنٹ کی اکثریت اس بات پر متفق تھی کہ تازہ ترین کانفرنسوں کے ذریعے حالات شاید بہتر ہو جائیں۔
اس حوالے سے افغان رکن پارلیمنٹ گل بادشاہ مجیدی نے ڈوئچے ویلے کو بتایا: ’’ہم پاکستانی پارلیمنٹ سے بھی یہ چاہتے ہیں کہ وہ اپنی حکومت پر دباؤ ڈالے اور جرگوں کے جو فیصلے ہیں ان پر عملدرآمد ہونا چاہئے۔‘‘
سابق وزیر داخلہ آفتاب شیر پاؤ نے کہا کہ خطے میں قیام امن کے لئے پاکستان اور افغانستان کے عوام کی امنگوں کو بھی مقدم رکھا جانا ناگزیر ہے۔
’’انتہاء پسندی اور دہشت گردی کے مسئلہ پر دونوں حکومتوں کا اپنا الگ موقف ہو گا لیکن عوام کا موقف شاید ان سے مختلف ہے اور جس پالیسی کی تائید عوام کریں گے وہ پالیسی کامیاب ہو گی۔‘‘
بحیثیت مجموعی پاکستان اور افغانستان میں برسر اقتدار اس وقت شخصیات کے مابین امریکہ کے ساتھ قریبی تعلقات اور دہشت گردی اور انتہاء پسندی کے خلاف ہم خیالی کے باعث پہلے سے کہیں زیادہ ہم آہنگی پائی جاتی ہے اور توقع کی جا رہی ہے کہ عوامی نمائندوں کے اشتراک عمل سے پاک افغان تعلقات مزید بہتر ہو سکتے ہیں۔