پاکستان افغان لیڈروں کو رہا کر کے امن عمل میں کردار ادا کرے: افغان حکام
22 جون 2013افغان وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ پاکستان درجنوں افغان قیدیوں کو رہا کر کے ہمسایہ ملک افغانستان میں امن کے قیام کے عمل کو شروع کرنے میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔ افغان وزارت کی طرف سے یہ بیان دراصل پاکستانی وزارت خارجہ کے اُس بیان پر رد عمل ہے، جس میں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان کا دفتر کھولے جانے کے اقدام کا خیر مقدم کیا گیا تھا۔
افغانستان کی طرف سے پاکستان پر بارہا یہ الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ وہ پڑوسی ملک میں طالبان کے خلاف 12 سال سے جاری جنگ میں دوغلا کردار ادا کرتا رہا ہے۔ ایک طرف اسلام آباد حکومت حکام امن عمل کی بھرپور حمایت کا دعویٰ کرتی ہے مگر دوسری جانب خود پاکستانی فوج میں ایسے عناصر موجود ہیں، جو پس پردہ طالبان کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔
افغان وزارت خارجہ کے بیان میں آج ہفتہ 22 جون کو کہا گیا کہ،’اگر پاکستان خلوص دل سے افغانستان کے امن عمل کی حمایت چاہتا ہے تو اُسے اُن افغان لیڈروں کو رہا کر دینا چاہیے، جنہیں پاکستانی حکام نے ایک عرصے سے قید کر رکھا ہے‘۔ مزید یہ کہ چوٹی کے افغان لیڈروں کی پاکستان کی طرف سے رہائی کے بعد افغانستان کی اعلیٰ امن کونسل کو موقع ملے گا، طالبان کے ساتھ امن مذاکرات عمل میں لانے کا۔
اس ضمن میں افغان وزارت نے2010 ء میں صدر حامد کرزئی کی طرف سے مذاکرات کے لیے طالبان کی زیر قیادت قائم کی جانے والی ایک کمیٹی کا حوالہ دیا، جس کے قیام کا مقصد 12 سالہ جنگ کے اختتام کے لیے گفت و شنید تھا۔
دوحہ میں طالبان کے دفتر کے قیام کے موقع پر منعقد ہونے والی تقریب تاہم اُس وقت تنازعے کا باعث بن گئی، جب طالبان مندوبین نے ایسے جھنڈے لہرانا شروع کیے جن پر ’اسلامک امارات آف افغانستان‘ درج تھا۔ طالبان 1996ء سے 2001 ء تک اپنے دور حکومت کے دوران اپنی یہی علامت یا نام استعمال کیا کرتے تھے۔ اس پر اعتراض کرتے ہوئے صدر کرزئی نے وہ منصوبہ منسوخ کر دیا، جس کے تحت افغان امن وفد کو قطر جا کر امریکا کے ساتھ ایک اہم سکیورٹی معاہدے کے بارے میں بات چیت کرنا تھی۔ کرزئی کے بقول امریکی یہ ثابت کرنے میں ناکام ہو گئے تھے کہ طالبان دوحہ میں اپنے دفتر کا ناجائز استعمال نہیں کریں گے۔
اُدھر افغانستان کی ایک اہم اپوزیشن پارٹی اور ملک کے شمالی لیڈروں کی اتحاد نے بھی قطر میں طالبان کے طرزِ عمل پر سخت تنقید کی ہے۔ اس اتحاد کی طرف سے آج ہفتے کو ایک بیان میں کہا گیا کہ ’دوحہ میں طالبان کے دفتر کا قیام غیر قانونی اور بین الاقوامی کنونشن کی خلاف ورزی ہے۔ مزید یہ کہ اس سے افعانستان کی ریاست کی قانونی حیثیت کو بھی نقصان پہنچے گا‘۔
کابل حکومت ایک عرصے سے پاکستان سے افغان طالبان لیڈروں کی رہائی یا کم از کم اُن تک رسائی کا مطالبہ کرتی آئی ہے۔ افغان صدر حامد کرزئی خاص طور سے طالبان رہنما ملا عمر کی رہائی کے خواہشمند ہیں۔
km/aa(Reuters)