پاکستان: فرقہ واریت کا مسئلہ اور انتخابات
6 مئی 2013احمد لدھیانوی کو اس کے مخالفین دہشت گرد قرار دیتے ہیں لیکن اپنے حامیوں کے لیے وہ امن کا علمبردار ہے۔ یہ سخت گیر سنی مذہبی رہنما پاکستان میں شیعہ مسلمانوں کے مخالف سب سے بڑے گروپ کا سربراہ ہے۔ لدھیانوی کے گروپ کو ممنوعہ دہشت گرد تنظیم لشکر جھنگوی کا سیاسی بازو قرار دیا جاتا ہے۔
مولانا احمد لدھیانوی ایک ایسے سیاسی اتحاد میں شامل ہے، جس کی سربراہی مولانا سمیع الحق کے پاس ہے۔ مولانا سمیع الحق کو پاکستان میں اور بیرون ملک ’بابائے طالبان‘ کا نام بھی دیا جاتا ہے ہے ۔ احمد لدھیانوی کے بقول اسے پاکستانی الیکشن میں حصہ لینے والی ایک اہم جماعت اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کی پارٹی مسلم لیگ نون نے ایک طرح سے دھوکا دیا ہے۔ مسلم لیگ نون نے احمد لدھیانوی کے سب سے بڑے حریف کو انتخابی ٹکٹ جاری کر دیا تھا۔ اس سیاستدان کا تعلق علاقے کے ایک بڑے جاگیردار اکرم خاندان سے ہے۔
سن 2008 کے عام انتخابات میں شیخ وقاص اکرم نے احمد لدھیانوی کو بہت معمولی فرق سے ہرا دیا تھا۔ پھر جب یہ ثابت ہو گیا کہ وقاص اکرم کی ڈگری جعلی تھی تو اس مرتبہ الیکشن میں احمد لدھیانوی کا حریف امیدوار شیخ وقاص اکرم کے والد کو بنا دیا گیا۔ اب مقابلہ بہت سخت ہے۔ پرانے حریف ایک دوسرے کے سامنے ہیں۔ طاقتور جاگیردار کے مقابل فرقہ واریت کا بڑھتا ہوا خطرہ ہے۔
احمد لدھیانوی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ’’اب تک میں اپنے شیعہ مخالف مشن کے سلسلے میں صرف مقامی سطح پر اور اپنی مقامی مسجد سے ہی آواز بلند کر سکتا ہوں۔ لیکن جب مجھے پارلیمان میں مائیکروفون ملے گا تو پوری قوم اور پوری دنیا سنے گی۔‘‘
لدھیانوی کی اہل سنت والجماعت تحریک اپنے کسی بھی قسم کی شدت پسندی اور خونریزی سے تعلق کی تردید کرتی ہے۔ لیکن سمجھا یہی جاتا ہے کہ یہ تحریک لشکر جھنگوی (LeJ) کا سیاسی بازو ہے۔ لشکر جھنگوی کو پاکستان میں سب سے زیادہ فعال دہشت گرد گروپوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ ممنوعہ تنظیم اس مقامی شیعہ آبادی کے سخت خلاف ہے جس کا پاکستان کی مجموعی آبادی میں تناسب 20 فیصد بنتا ہے۔
لشکر جھنگوی نے پاکستان میں اس سال ہونے والے ان دو بم دھماکوں کی ذمہ داری قبول کر لی تھی، جو سب سے زیادہ ہلاکت خیز ثابت ہوئے تھے۔ صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں ہونے والے ان بم دھماکوں میں 182 افراد مارے گئے تھے۔ اس کے علاوہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ لشکر جھنگوی کے دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ کے ساتھ بھی رابطے ہیں۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے مطابق پاکستان میں گزشتہ برس شیعہ مسلمانوں کے خلاف خونریز حملے ریکارڈ حد تک زیادہ ہو گئے تھے۔
جھنگ پاکستان کے وسطی صوبہ پنجاب کے اہم ترین شہروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ وہاں سے قومی اسمبلی کے چار ارکان منتخب کیے جاتے ہیں۔ یہی شہر پاکستان میں فرقہ ورانہ دہشت گردی کی جائے پیدائش بھی ہے۔ لشکر جھنگوی سے پہلے قائم کیے جانے والے انتہا پسند گروپ سپاہِ صحابہ پاکستان (SSP) کی بنیاد اسی شہر میں 1985 میں رکھی گئی تھی۔ اہل سنت والجماعت کا سربراہ بھی ہمیشہ جھنگ میں ہی رہتا ہے۔ احمد لدھیانوی پہلے سپاہِ صحابہ کا ایک رہنما تھا۔
شیخ وقاص اکرم کے مطابق جھنگ میں صرف دو طرح کے ووٹ ہوتے ہیں، ’یا تو سپاہِ صحابہ کے حق میں یا ان کے خلاف‘۔ جھنگ میں پاکستانی قومی اسمبلی کے اس انتخابی حلقے سے کون جیتے گا، اس کا فیصلہ ہونے میں اب زیادہ دن باقی نہیں ہیں۔
ij /ai (AFP)