پاکستان: ماحولیاتی تبدیلیوں کے دیہی خواتین اور بچوں پر اثرات
14 دسمبر 2024پاکستان دنیا کے ان پانچ بڑے ممالک میں شامل ہے، جو ماحولیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران شدید ماحولیاتی تبدیلیوں نے دیہی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں، جن میں صاف پانی کی قلت، زرعی پیداوار میں کمی، خوراک کی قلت اور تعلیم و صحت جیسی بنیادی سہولتوں کا فقدان شامل ہیں۔
پاکستان کے ادارہ برائے شماریات کے مطابق ملک کی کل آبادی کا 60 فیصد سے زائد حصہ دیہی علاقوں میں مقیم ہے۔
نیلوفر بختیار سابق چیئرپرسن نیشنل کمیشن آن دی اسٹیٹس آف ویمن ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے ترقیاتی پروگرام یو این ڈی پی کی ایک حالیہ رپورٹ میں شائع ہونے والے ان کے ایک بیان کے مطابق پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیاں محض ماحولیاتی مسئلہ نہیں بلکہ ایک انسانی بحران ہیں، جو دیہی خواتین اور بچوں کو غیر متناسب طور پر متاثر کر رہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ دیہی علاقوں میں خواتین کو موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرات کے بارے میں آگاہی نہیں ہے جبکہ تربیت اور شعور کی کمی انہیں فیصلہ سازی میں شرکت سے روکتی ہے، جس کا اثر کسی بھی آفت کے دوران یا اس کے بعد پورے خاندان پر پڑتا ہے۔
پاکستان میں ’واٹر ایڈ‘ کے لیے کام کرنے والے ڈاکٹر شکیل حیات نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ''ماحولیاتی تبدیلیاں سب سے پہلے اور بڑے پیمانے پر پانی کو متاثر کرتی ہیں۔ شہری علاقوں میں پانی کی قلت کے متبادل آسان ہیں، جیسے کہ پانی کے ٹینکر کا بندوبست وغیرہ لیکن دیہی علاقوں میں یہ صورتحال خواتین کے لیے سنگین ہے۔ دیہی خواتین کا بیشتر وقت پانی بھرنے میں صرف ہوتا ہے، جس سے ان کی اپنی صحت کے ساتھ ساتھ بچوں کی نگہداشت اور تعلیم متاثر ہوتی ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات سب کے لیے یکساں نہیں ہیں۔ قدرتی آفات، جیسے کہ سیلاب یا زلزلوں کے بعد نقل مکانی کے دوران خواتین کو ٹوائلٹ اور جسمانی صفائی کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس کے نتیجے میں جنسی تشدد کے کیسز اور تولیدی صحت کے مسائل بڑھ جاتے ہیں۔
موسمیاتی تبدیلیوں کے پاک بھارت آبی تنازعے پر اثرات
اس کے علاوہ صاف پانی اور جسمانی صفائی کی کمی کی وجہ سے بچے مختلف بیماریوں کا شکار ہو کر اسکول چھوڑ دیتے ہیں۔ پانی کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات ہر شعبے، جیسے کہ صحت، تعلیم، انرجی اور ٹرانسپورٹ پر مرتب ہو رہے ہیں۔ اس کے باوجود پاکستان کے سالانہ بجٹ میں پانی کے شعبے کے لیے صرف تین فیصد فنڈز مختص کیے گئے ہیں، جو انتہائی کم ہیں۔
وہ کہتے ہیں، ''ہمیں ان مسائل سے نمٹنےکے لئے کمیونٹیز کی ریزیلئینس بڑھانے، صحت کے شعبے پر دباؤ کم کرنے اور خواتین و بچوں کی بہتر اور محفوظ زندگی کو یقینی بنانے کے لیے پانی کے منصوبوں پر سرمایہ کاری بڑھانا ہو گی۔‘‘
اسلام آباد میں ورلڈ بینک کے ساتھ منسلک سماجی ترقی کے ماہر عامر حسین نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے بتایا، ''دیہی خواتین کی زندگی تھر جیسے علاقوں میں خشک سالی کے باعث بہت مشکلات کا شکار رہتی ہے۔ یہ خواتین حاملہ ہونے کے باوجود یا نوزائیدہ بچے کے ساتھ 50 ڈگری درجہ حرارت میں دور دراز علاقوں سے پانی بھرنے جاتی ہیں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ اس سفر میں نہ صرف خواتین کی صحت متاثر ہوتی ہے بلکہ ان کو جنسی حملوں کے خطرات کا سامنا بھی رہتا ہے۔ اسی طرح قدرتی آفات سے متاثرہ حاملہ خواتین کو بروقت صحت کی سہولیات نہ ملنے کے باعث زچہ و بچہ کی اموات کی شرح میں اضافہ ہوتا ہے اور ساتھ ہی بچوں کی نشوونما بھی متاثر ہوتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس مسئلے کے حل کے لیے پائیدار اقدامات کے ساتھ ساتھ حکومتی و بین الاقوامی تعاون کی ضرورت ہے۔