پاکستان میں تشدد کے خاتمے میں تھیٹر کا ممکنہ کردار
17 نومبر 2009پاکستان کو ان دنوں دہشت گردی کی جس لہر کا سامنا ہے، اس کا بہت برا اثر پاکستانی تھیٹر پر بھی پڑا ہے۔ سنجیدہ تھیٹر دیکھنے والوں کی پہلے ہی بہت کمی تھی اس پر ایسے حالات میں تھیٹر کیا کردار ادا کر رہا ہے۔ اس موضوع پر ڈوئچے ویلے تفصیلی گفتگو ہوئی پاکستانی شہر کراچی میں سنجیدہ تھیٹر سے گزشتہ تین دہائیوں سے وابستہ معروف مصنف اور ہدایتکار وجیہ احمد وارثی کے مطابق تھیٹر پاکستانی میں اپنی ذمہ داری ادا کرنے سے مکمل طور پر قاصر ہے۔ اس کی وجوہات بیان کرتے ہوئے وجیہ وارثی نے بتایا کہ کوئی سنجیدہ سٹیج ڈرامہ پیش کرنے کے لئے اول تو کوئی سرمایہ کار نہیں ملتا اور اگر مل بھی جائے تو عوام اپنی خراب معاشی صورتحال کی بنا پر اب کم کم ہی تھیٹر کا رخ کرتے ہیں۔
تھیٹر ابلاغ کا براہ راست میڈیم ہونے کی بنا پر شعور و آگہی کے لئے بہترین کردار ادا کر سکتا ہے تاہم پاکستان میں تھیٹر اداکاروں کی کمی بھی آرٹ کی اس فارم کی زبوں حالی کا باعث ہے۔ وجیہ وارثی تھیٹر میں اداکاروں اور ہدایکاروں کی کمی کا الزام ٹی چینلز کو دیتے ہیں۔
وجیہ وارثی کے مطابق پاکستانی میڈیا دہشت گردی کے خلاف شعور و آگہی کے حوالے سے اپنا کردار ادا کر رہا ہے تاہم تھیٹر فی الحال اس جہت میں مسلسل مسائل کا شکار دکھائی دے رہا ہے تاہم ایسا بھی نہیں کہ تھیڑ مکمل طور پر مفلوج ہو چکا ہے اور کسی قسم کی سرگرمی سے محروم ہے۔
’’معاشرے میں تشدد کے رجحان کو کم کرنے میں تھیٹر اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔‘‘
پاکستان میں مسائل کی نشاندہی کے حوالے سے کراچی میں شیما کرمانی، عارف باحلیم، وجیہ وارثی، مدیحہ گوہر، فیصل ملک، عثمان پیرزادہ اور دیگر بہت سے ہدایت کار اور فنکار اپنا کردار بھرپور انداز سے ادا کر رہے ہیں۔
ایڈز کے پھیلاؤ کی روک تھام ہو یا خواتین کے حقوق، غربت اور یا افلاس، تعلیم ہو یا بچوں سے زیادتی۔ رشتے ہوں یا رویے، مسائل کچھ بھی ہوں، تھیٹر آواز ضرور اٹھاتا ہے اور تھیٹر صرف اپنے دیکھنے والوں کو ہی باشعور نہیں بنایا بلکہ پرفارمرز کی بھی بھرپور تربیت کرتا ہے۔
پاکستان میں کسی اور میڈیم پر اتنا کھل کر اظہار رائے کرنا شاید ممکن نہ ہو لیکن تھیٹر پر معاشرتی ناہمواریوں پر کھل کر تنقید دکھائی دیتی ہے۔ چند روز قبل پیش کئے جانے والے ایک پاکستانی سٹیج ڈرامے کے ایک منظر میں ایک لڑکی کے ڈائلاگ تھے۔
’’میں عورت ہوں کوئی چیز نہیں، تم نے میرے ہاتھوں پر مہندی لگا کر انہیں خون سے رنگ دیا ہے۔ میں سانس لوں تو گناہ اور میرا شوہر ہاتھوں میں مذہب کر پرچم اٹھائے نفرت پھیلاتا ہوا محو رقص۔‘‘
محمد علی جناح یونیورسٹی کی ملیحہ حیدر اور ان طلبہ کی جانب سے پیش کئے جانے والے ڈرامے کا یہ ایک چھوٹا سا منظر تو صرف ایک مثال ہے پاکستانی سٹیج پر اس جیسے کئے ڈرامے اسی شدت کے ساتھ اپنا تعمیری کردار ادا کر رہے ہیں۔
رپورٹ : عاطف توقیر
ادارت : کشور مصطفیٰ