پاکستان میں پالتو جانوروں کے قبرستان کب بنیں گے؟
21 دسمبر 2024پاکستان میں سماجی نقطہ نظر سے جانوروں کے حقوق اور ان کی بہبود کے انتظامات اور ترجیحات ناکافی ہیں حالانکہ بڑے شہروں میں گھروں میں پالتو جانور رکھنے کا رواج عام ہے۔ گھروں میں رکھے جانے والے پالتو جانوروں، خاص کر کتوں وغیرہ کے بارے میں عوام کی اکثریت کی معاشرتی اور مذہبی رائے منفی ہوتی ہے۔ حالاں کہ عام شہریوں کا ایک چھوٹا طبقہ گھروں میں پالتو جانور رکھتا بھی ہے اور ان سے پیار بھی کرتا ہے۔ عوامی رویوں کا یہی فرق کئی سوالات کو بھی جنم دیتا ہے اور سماجی مسائل کو بھی۔ اکثر قدامت پسند پاکستانی گھروں میں کتوں کو گندگی اور ناپاکی کا سبب قرار دیا جاتا ہے۔ مگر جنہوں نے ایسے جانور پال رکھے ہوتے ہیں، وہ انہیں بہت پیار کرتے اور باقاعدہ اپنے گھرانوں کے ارکان سمجھتے ہیں۔
جرمنی کو'ڈاگ ٹیکس' سے گزشتہ سال ریکارڈ آمدن
فرنچ بُل ڈاگ کی امریکہ میں ریکارڈ مقبولیت
چین میں پالتو جانوروں کی شادیوں کا رجحان عروج پر
گھروں میں پالتو جانور رکھنے کا ایک ایسا جذباتی پہلو بھی ہے، جس کے بارے میں بہت ہی کم بات کی جاتی ہے۔ یعنی کوئی بہت ہی پیارا گھریلو جانور اگر اپنی طبعی عمر پوری کر کے یا کسی بیماری کی وجہ سے مر جائے، تو کیا کیا جائے؟ ایسے پالتو جانور اگر کسی لاعلاج مرض کا شکار ہو جائیں، تو بہت تکلیف دہ بات جانوروں کے کسی ڈاکٹر کے ذریعے انہیں زہریلا ٹیکہ لگوا کر ہمیشہ کی نیند سلا دینے کا فیصلہ کرنا ہے۔
کسی گھرانے کا رکن کوئی انسان انتقال کر جائے، تو اس کی باقاعدہ تدفین کی جاتی ہے، سوگ منایا جاتا ہے اور دوست رشتہ دار تعزیت کے لیے آتے ہیں۔ لیکن گھرانے کا مرنے والا رکن اگر کوئی پالتو جانور ہو تو شدید صدمے کے ساتھ ساتھ بہت بڑا مسئلہ یہ پیدا ہو جاتا ہے کہ اس کا کیا کیا جائے؟ پاکستان میں پالتو جانوروں کی تدفین کے لیے کوئی قبرستان نہ ہونے کے باعث زیادہ تر ہوتا یہ ہے کہ ایسے مردہ جانوروں کو کہیں نہ کہیں پھینک دیا جاتا ہے، جو ان کے مالکان کے دکھ میں کمی کے بجائے مزید اضافہ کر دیتا ہے۔
انسانی حقوق کے لیے سرگرم ادارے 'ہم آہنگ‘ میں جینڈر اور سوشل انکلیوژن سے متعلقہ أمور کی مشیر سیدہ مجیبہ بتول نے اپنے ذاتی تجربات بیان کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میں نے اپنے آٹھ سالہ کتے کا، جس کا نام ہاچی تھا، چار سال تک ہر ممکن علاج کرایا۔ لیکن آخر اسے ڈاکٹر کی مدد سے انجیکشن لگا کر ابدی نیند سلانا ہی پڑا۔ اس ڈاکٹر کا کلینک اسلام آباد کے سیکٹر ای الیون میں ہے۔ تو ہم نے ہاچی کے مردہ جسم کو ایک پلاسٹک بیگ میں ڈال کر وہاں سے کچھ دور جنگل میں ایک گہرا گڑھا کھود کر اس میں دفنایا۔‘‘
سیدہ مجیبہ بتول نے کہا، ''اس سارے عمل کے لیے ڈاکٹر نے پچیس ہزار روپے لیے اور مجھے کم از کم یہ تسلی تھی کہ ہم نے مردہ ہاچی کو کہیں پھینکنے کے بجائے بہرحال دفنا دیا۔‘‘
اقوام متحدہ کے منشیات اور جرائم کی روک تھام کے دفتر کی اسلام آباد شاخ کی کمیونیکیشنز کی سربراہ رضوانہ راہول بھی جانوروں سے بہت پیار کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ زندگی میں دو بار ایسے صدمات جھیل چکی ہیں۔ ایک بار ان کا ایک پانچ سالہ پالتو کتا مر گیا تھا اور دوسری مرتبہ چار سال کا ایک بلا۔ ان کا کہنا تھا کہ دونوں مرتبہ ہی سب سے بڑا مسئلہ ان مردہ پالتو جانوروں کو دفنانے کا تھا۔
رضوانہ راہول نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''جب میرا کتا، جس کا نام کُکی تھا، بیمار ہوا تو ڈاکٹر نے علاج کے لیے پچاس ہزار روپے لیے تھے۔ وہ بیماری ہی کے باعث مرا تھا۔ میرے لیے وہ میرے گھرانے کا ایک رکن تھا۔ اس کا مردہ جسم کہیں پھینکا تو نہیں جا سکتا تھا۔ ڈاکٹر نے کہا تھا کہ وہ اسے دفنانے کا انتظام کر سکتا تھا۔ میں نے تدفین کے لیے ڈاکٹر کو نو ہزار روپے دیے تھے۔‘‘
اقوام متحدہ کے لیے کام کرنے والی رضوانہ راہول کے مطابق، ''اسلام آباد میں جانوروں کے ایک اچھے ہسپتال اور ایک قبرستان، دونوں کی اشد ضرورت ہے۔ شہر میں جانوروں کی چند چھوٹی علاج گاہیں تو ہیں، لیکن وہاں اپنے کسی پالتو جانور کا علاج کرانا مالی حوالے سے اپنی کھال اتروانے جیسا ہے۔‘‘
اسلام آباد میں وائلڈ لائف کے ڈپٹی ڈائریکٹر سخاوت علی نے اس موضوع پر ایک انٹرویو میں ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اسلام آباد نیچر کنزرویشن اینڈ وائلڈ لائف مینجمنٹ ایکٹ 2023 سے پورے وفاقی دارالحکومت میں فطرت اور جنگلی حیات کو تحفظ ملا ہے۔ انہوں نے کہا، ''اگر فطرت یا نیشنل پارک میں مثلاﹰ ہرن یا کوئی دوسرا جانور مر جاتا ہے، تو وہ وہاں کے ماحولیاتی نظام کا حصہ ہوتا ہے اور اس کے مردہ جسم کو وہاں سے اٹھایا نہیں جاتا۔ لیکن اگر کوئی جانور انسانی اسباب کے باعث سڑک پر کسی حادثے میں ہلاک ہو جائے، تو اس کے مردہ جسم کا باقاعدہ پوسٹ مارٹم کیا جاتا ہے اور پھر اس کا جسم پاکستان میوزیم آف نیچرل ہسٹری میں جمع کرا دیا جاتا ہے، جو اسے ریسرچ کے لیے رکھ لیتے ہیں۔‘‘
سخاوت علی نے کہا، ''میری رائے میں حالیہ برسوں میں اسلام آباد میں گھروں میں پالتو جانور رکھنے کے رجحان میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ ایسا انسانوں کے بدلتے ہوئے طرز زندگی اور بہبود حیوانات سے متعلق زیادہ آگہی کی سبب ہوا ہے۔ بہت سے لوگ آج بھی خالص نسلی پالتو جانوروں خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ لیکن نوجوان نسل کے بہت سے افراد تو گلیوں سے لاوارث جانور بھی گود لے لیتے ہیں۔‘‘
جانوروں کو ریسکیو کرنے اور ان کی فلاح کے ادارے کریئٹرز آرٹ ویلفیئر آرگنائزیشن کی سربراہ انیلا خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اسلام آباد میں مردہ جانوروں کو ٹھکانے لگانے کا کوئی جامع سرکاری نظام نہیں۔ پالتو جانوروں کے اکثر مالکان وٹیرنری ڈاکٹروں پر ہی بھروسہ کرتے ہیں۔ لاوارث مردہ جانوروں کو بلدیہ ٹھکانے لگاتی ہے، جس کا طریقہ کار انتہائی پریشان کن ہوتا ہے۔‘‘
انیلا خان کے بقول، ''زندہ یا مردہ، انسانوں کی طرح جانوروں کے بھی حقوق ہیں۔ پالتو جانوروں کی بھی کوئی آخری آرام گاہ ہونی چاہیے۔ ایسا کوئی قبرستان بنانے میں مدد کون کرے گا؟ ہم کوشش کریں بھی، تو فنڈز نہیں ملیں گے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں کے عام رویوں میں جانوروں کو جاندار سمجھا ہی نہیں جاتا۔‘‘
پالتو جانوروں کو اپنے وی لاگز کا موضوع بنانے والے علی خان نے کہا کہ اہم ترین مسئلہ نفسیاتی ہے۔ جس جانور کو سالہا سال پالا اور جس سے محبت کی ہو، اس کا اس کی موت کے بعد کیا کیا جائے؟ اسے کہاں لے جایا جائے؟
علی خان نے اپنے ایک دوست اور اس کے گھرانے کو پہنچنے والے حالیہ صدمے کی مثال دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میرے ایک قریبی دوست کے گھر میں دو پالتو کتوں میں سے ایک کی شدید بیماری لاعلاج ہو گئی، تو اسے ٹیکہ لگوا کر موت کی نیند سلانا پڑا۔ اس کا پورا خاندان بڑے صدمے سے گزرا۔ ان کے گھر میں کافی جگہ تھی، تو انہوں نے اسے اپنے باغیچے کے ایک کونے میں ہی دفنا دیا۔‘‘
علی خان نے مشورہ دیتے ہوئے کہا، ''مردہ پالتو جانورں کو ہمیشہ کسی پلاسٹک بیگ میں بند کر کے دفنانا چاہیے اور بیگ پر چونا ڈال دینا چاہیے، تاکہ اس جانور کی موت کا باعث بننے والی بیماری کے جراثیم زیر زمین بھی پھیل نہ سکیں۔‘‘