پاکستان کا وہ ایوان جہاں ووٹ کروڑوں میں بکتے ہیں
9 فروری 2021وزیراعظم عمران خان کی حکومت کا کہنا ہے کہ سینیٹ کے الیکشن کو صاف شفاف بنانے کے لیے اس کی ووٹنگ خفیہ کی بجائے کھلے طریقے سے ہونی چاہیے۔
اس سلسلے میں حکومت نے چھ فروری کو ایک صدارتی حکم نامے کے ذریعے قواعد وضوبط کو بدل دیا۔ اپوزیشن نے شور مچایا کہ "ہم رات کے اندھیرے میں جاری کیے جانے والے حکم ناموں کو نہیں مانتے۔"
حزب اختلاف کا موقف ہے اگر حکومت کو اصلاحات لانی تھیں تو اپوزیشن سے مشاورت کرکے مل کر منتخب ایوان سے آئینی ترمیم منظور کراتی۔ لیکن اپوزیشن کے بقول اس طرح یک طرفہ فرمان جاری کرنے سے حکومت کی بدنیتی ظاہر ہوتی ہے۔ یہ معاملہ اب سپریم کورٹ کے ایک بینچ کے سامنے ہے جسے دونوں جانب کے دلائل سننے کے بعد اپنا فیصلہ دینا ہے۔
ووٹ ضمیر کا نوٹ کا؟
بلوچستان کے سینئر صحافی شہزادہ ذوالفقار کہتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ سینیٹ کے الیکشن میں بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں ووٹوں کی خرید وفروخت ہوتی آئی ہے۔
آبادی کی بنیاد پر ہونے والے عام انتخابات میں قومی سطح کی پارٹیاں بلوچستان کو یکسر نظرانداز کرتی ہیں۔ لیکن سینیٹ کے الیکشن میں وہاں کا ووٹ سب سے قیمتی ووٹ بن جاتا ہے جہاں ریاستی قوتیں اور مالدار عناصر انتخابات میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔
شہزادہ ذوالفقار کے مطابق "یہاں بولیاں لگتی ہیں اور رکن صوبائی اسمبلی کا ووٹ پانچ سے سات کروڑ میں بھی بکتا ہے۔" اس لیے ان کے خیال میں اگر عمران خان کی حکومت اس طریقہ کار کو شفاف بنانا چاہتی ہے تو اس سے نظام میں بہتری آ سکتی ہیں۔
پی ٹی آئی کا احساس عدم تحفظ
لیکن اسلام آباد کے سینئر صحافی مرتضی سولنگی کے مطابق پی ٹی آئی حکومت جس عجلت اور یک طرفہ انداز میں ووٹنگ کا طریقہ کار بدلنے کی کوشش کر رہی ہے اس کا تعلق نظام کو بہتر کرنے کی بجائے حکومت کے اپنے احساسِ عدم تحفظ سے ہے۔
"تحریک انصاف کے اندر کئی سینئر لوگ حکومتی کارکردگی اور عمران خان کے انداز حکمرانی سے نالاں ہیں۔ یہ لوگ ڈھائی سال میں اپنے حلقوں کےعوام کو کچھ نہیں دے سکے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم کیوں عمران خان کی چنیدہ شخصیات کو ووٹ دیں؟ وہ سوال کرتے ہیں کہ بابر اعوان، شہزاد اکبر، حفیظ شیخ، ثانیہ نشتر اور ذلفی بخاری جیسے لوگوں کا کیا تعلق ہے پی ٹی آئی سے؟ میرے خیال میں حکومت کو پتہ ہے کہ اس کے اپنے لوگ اِدھر اُدھر ہو سکتے ہیں۔ اسی لیے وہ انہیں پارٹی قیادت کے حکم سے پابند کرنے کے لیے یہ کر رہی ہے۔"
پارلیمان کی بجائے دیگر اداروں پرانحصار
سینئر صحافی ضیغم خان کے خیال میں پی ٹی آئی کی پالیسی تضادات کا شکار ہے۔ انہوں نے کہا کہ دو سال پہلے سینیٹ میں جب اپوزیشن چیئرمین کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی تو خفیہ ووٹنگ میں اس کے گیارہ سینیٹرز نے اپنی جماعتوں کو دھوکہ دیا اور وہ تحریک ناکام ہوگئی۔ اس وقت پی ٹی آئی نے اسے ویلکم کیا اور اسے ان ارکان کا "ضمیر کا ٖفیصلہ" قرار دے کر سراہا گیا۔
ضیغم خان کے مطابق حکومت ووٹنگ سے متعلق اصلاحات کو پارلیمان سے منظور کرانے کی بجائے سپریم کورٹ پر انحصار کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ "عدلیہ نے اگر اس معاملے میں بھی حکومت کو کندھا دیا تو یہ ایک اسکینڈل ہوگا۔"
نمبر گیم کیا ہے؟
سینیٹ کے اس انتخاب میں آدھی نشستیں یعنی 48 سیٹیں خالی ہوں گی۔ قبائیلی علاقوں کا خیبرپختونخوا میں ضم ہو جانے کے بعد اس بار فاٹا کی خالی ہونے والی چار نشستوں پر انتخاب نہیں ہوگا اور یہ سیٹیں ختم ہو جائیں گی۔
ملک کی چاروں صوبائی اسمبلیوں اور قومی اسمبلی میں پارٹی پوزیشن دیکھتے ہوئے نظر یہ آتا ہے کہ اس الیکشن کے نتیجے میں حکمراں پی ٹی آئی سینیٹ میں 28 سیٹیں حاصل کرنے کے بعد سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھرے گئی۔ اس کی کوشش ہوگی کہ چھوٹی پارٹیوں کو ساتھ ملا کر سادہ اکثریت حاصل کر لے۔
اس الیکشن میں پیپلز پارٹی کے پاس 19 سیٹیں آنے کی توقع ہے جبکہ مسلم لیگ نواز کے حصے میں 17 نشستیں آسکیں گی۔
یوں مارچ کے بعد سینیٹ میں مسلم لیگ نواز کی بجائے پیپلز پارٹی حزب اختلاف کی سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھر سکتی ہے۔ پی ڈی ایم کی دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر سینیٹ میں حزب اختلاف حکومت کو مشکل وقت دے سکتی ہے۔
چھوٹی پارٹیوں میں دیگر جماعتوں کے ساتھ جماعت اسلامی، مولانا فضل الرحمن کی جے یو آئی، متحدہ قومی مومنٹ، بی این پی (مینگل)، باپ پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی ، نیشنل پارٹی اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی شامل ہیں۔