1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان کو ترکی کے گن شپ ہیلی کاپٹر دینے پر امریکی اعتراض

عبدالستار، اسلام آباد
10 مارچ 2021

پاکستان میں دفاعی اور سفارتی حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ ڈیل خراب ہونے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا کیونکہ پاکستان اپنی دفاعی ضروریات کے لیے ویسے بھی چین کی طرف دیکھتا ہے۔

https://p.dw.com/p/3qRKO
Türkischer Kampfhubschrauber T129
تصویر: picture-alliance/AA/C. Oksuz

ماہرین کے مطابق ترکی کے ان گن شپ ہیلی کاپٹروں میں امریکی انجن ہیں۔ اس لیے امریکا کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ ہیلی کاپٹروں کی کسی تیسرے ملک کو برآمد روک دے۔ دونوں ملکوں کے درمیان معاہدوں کے تحت امریکی اجازت کے بغیر ترکی یہ گن شپ ہیلی کاپٹر پاکستان کو ایکسپورٹ نہیں کر سکتا۔

ان ہیلی کاپٹرز کی خرید کے لیے پاکستان نے ترکی کے ساتھ جولائی دوہزار اٹھارہ میں 1.5 بلین ڈالر کا معاہدہ کیا تھا۔ تاہم امریکا نے اس کی اجازت دینے سے انکار کیا جس کے باعث یہ معاہدہ تاخیر کا شکار رہا ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ یہ خالصتا ایک تکنیکی مسئلہ ہے، جس کا زیادہ تعلق ترکی اور روس کے درمیان ہتھیاروں کی خریدوفروخت سے ہے۔ امریکا اس کے حق میں نہیں اور اس لیے ترکی کی دیگر ملکوں کے ساتھ دفاعی تجارت میں روکاوٹیں کھڑی کرتا ہے۔

Türkei, Ankara: Recep Tayyip Erdogan und Wladimir Putin schütteln sich die Hände
تصویر: picture-alliance/abaca/Depo Photo

پریشانی کی بات نہیں

دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے پاکستان کو زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ پاکستانی فوج کے سابق لیفٹنینٹ جنرل امجد شعیب کا کہنا ہے کہ امریکا اس سے پہلے بھی ہتھیاروں کی سپلائی روکتا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ "امریکا سے ہتھیاروں کی خرید و فروخت ویسے بھی بہت کم ہوگئی ہے اور اب ہمارا چین سے قریبی تعاون ہے۔" انہوں نے کہا کہ ترکی نیٹو کا رکن ہے اور یورپ سے بھی اس کے قریبی تعلقات ہیں، اس لیے پاکستان نے اس معاہدے کے لیے ترکی کو ترجیح دی۔

تاہم انہوں نے کہا کہ "ہمیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیوں کہ اس نوعیت کے گن شپ ہیلی کاپٹر ہم چین سے بھی خرید سکتے ہیں۔ ہم نے بنیادی طور پر ترکی کو بزنس دینے کے لیے یہ معاہدہ کیا تھا۔ اس سے پہلے بھی ایسا ہوا کہ پاکستان کچھ ہتھیار برطانیہ سے خرید سکتا تھا لیکن ترکی سے تجارتی تعلقات کو بہتر کرنے کے لیے ہتھیار ترکی سے خریدے گئے۔ اب بھی اسلام آباد ترکی سے کئی معاملات میں تجارتی تعاون چاہتا ہے۔ شاید اسی لیے یہ معاہدہ ترکی سے کیا گیا تھا۔"

اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق سفیر شمشاد احمد خان کا کہنا ہے کہ "وہ دن گئے جب پاکستان کی خارجہ پالیسی کا محور صرف امریکا ہوا کرتا تھا۔ اب پاکستان کی خارجہ پالیسی آزاد ہے اور ہمیں اس امریکی فیصلے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا کیونکہ ہمارا چین کے ساتھ بہت قریبی تعاون ہے۔" 

Arif Alvi besucht China
تصویر: picture-alliance/Photoshot/Zhai Jianlan

ہتھیاروں کا غلط استعمال

بعض ناقدین کا خیال ہے کہ ٹرمپ کی نسبت صدر جو بائیڈن انسانی حقوق کے معاملے پر زیادہ حساس ہے۔ امریکا یہ بھی یقینی بنانا چاہتا ہے کہ اس کے بیچے ہوئے ہتھیار کہیں بھی اس کے مفادات کے خلاف استعمال نہ ہوں۔

پشاور یونیورسٹی کے سابق ڈائریکٹر پروفیسر محمد سرفراز خان کا کہنا ہے کہ یمن میں امریکی ہتھیاروں کو غلط استعمال کیا گیا جس کی وجہ سے امریکی انتظامیہ پر بہت دباؤ ہے کہ آئیندہ ایسا نہ ہو۔

"امریکا نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو ہتھیار فراہم کیے جو یمن میں استعمال کیے گئے اور اس پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے بہت شور کیا۔ میرے خیال میں اسی وجہ سے امریکا اب بہت محتاط ہے۔ اسے خدشہ ہے کہ کہیں پاکستان گن شپ ہیلی کاپٹرز بلوچستان یا کسی اور جگہ استعمال نہ کرے جس کا بعد میں بھارت فائدہ اٹھائے اور کہے کہ پاکستان اپنے لوگوں کے خلاف ہی یہ ہتھیار استعمال کر رہا ہے۔"