پاکستان کے پہلے ہیومن مِلک بینک کو کام کرنے سے روک دیا گیا
22 جون 2024رواں ماہ کے آغاز میں صوبہ سندھ کے انسٹیٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ اینڈ نیؤنیٹولوجی (ایس آئی سی ایچ این) میں پاکستان کا پہلا ہیومن مِلک بینک قائم کیا گیا تھا۔ تاہم پاکستانی حکام نے ایک فتوے کے بعد اس کو عارضی طور پر معطل کر دیا ہے اور اس معاملے کو اسلامی نظریاتی کونسل کے پاس بھیج دیا ہے تاکہ اس حوالے سے مزید رہنمائی حاصل کی جا سکے۔
ہسپتال نے اس بارے میں تفصیلات نہیں بتائیں کہ یہ منصوبہ کیسا چل رہا تھا اور کتنے نومولود بچے اس فیصلے سے متاثر ہوں گے؟
اس سے قبل جامعہ دارالعلوم کراچی، جو کہ اپنے علماء اور فتاویٰ کے لیے مشہور ہے اور پیچیدہ مسائل کی ترجمانی کرتی ہے، نے انسانی دودھ کے بینک کے حق میں فتویٰ جاری کیا تھا۔ تاہم اس فتوے میں پیشگی شرائط کی ایک فہرست بھی دی گئی تھی۔ ان شرائط کے مطابق یہ ضروری ہے کہ دودھ فراہم کرنے والی ماؤں اور یہ دودھ پینے والے بچوں اور ان کی ماؤں کا مکمل ڈیٹا شائع کیا جائے۔ اس طرح یہ دودھ صرف مسلم مائیں دیگر مسلم ماؤں کو ہی دے سکتی ہیں اور یہ سروس مفت فراہم کی جائے گی۔
تاہم 16 جون کو جامعہ دارالعلوم نے اپنے پہلے اجازت نامے کو منسوخ کرتے ہوئے کہا کہ پیشگی شرائط کو پورا کرنا تقریباً ناممکن نظر آتا ہے۔
ایس آئی سی ایچ این کے ایک بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ قبل از وقت پیدا ہونے والے بچے، خاص طور پر جن ماؤں کا حمل 34 ہفتوں سے کم رہا ہو یا نوزائیدہ بچے کا وزن دو کلو سے کم ہو، اکثر ان کی غذائیت کو پورا کرنے کے لیے ماں کا دودھ کافی نہیں ہوتا۔
مائیں بچوں کو اپنے دودھ کی بجائے فارمولا دودھ کیوں پلاتی ہیں؟
یونیسیف کے تعاون سے قائم کیے گئے اس بینک میں مائیں اُن بچوں کے لیے اپنا دودھ جمع کروا سکتی تھیں، جو کسی بھی وجہ سے اپنی ماں کا دودھ پینے سے محروم رہ جاتے ہیں۔
ہیومن مِلک بینک کی سوشل میڈیا پر خبر وائرل ہونے کے بعد یہ معاملہ زیر بحث تھا۔ پاکستان کے مذہبی طبقے کا کہنا ہے کہ 'انسانی دودھ بینک‘ شرعی اصولوں کے منافی ہے جبکہ ملک کا آزاد خیال طبقہ اس کے حق میں ہے۔
اس بحث کے شدت اختیار کر جانے کے بعد پاکستان کے مشہور مفتی تقی عثمانی نے 16 جون کو ہیومن مِلک بینک کے ناجائز ہونے کا فتویٰ جاری کر دیا، جس کے بعد اس ادارے کی تمام تر سرگرمیاں روک دی گئیں۔
مذہبی رہنماؤں کے مطابق یہ مسئلہ رضاعیت کے مسئلے سے جڑا ہوا ہے۔ ان کے مطابق اگر خواتین اپنا دودھ بینک میں جمع کروائیں گی، تو اس طرح کوئی نہیں معلوم کر سکے گا کہ کس بچے نے کس خاتون کا دودھ پیا ہے اور اسلام کا پیش کردہ رضاعی بہن بھائی کا تصور ختم ہو جائے گا۔
پاکستانی معاشرہ ایک قدامت پسند اسلامی معاشرہ ہے، جہاں اسلامی تعلیمات کے خلاف سمجھے جانے والے اقدامات کو اکثر ناپسندیدگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ا ا / م م (ڈی پی اے)