پاکستانی آبادی کا بڑا حصہ غذائی عدم تحفظ کا شکار، اقوام متحدہ
6 جولائی 20122012ء کے لیے جاری کی گئی اقوام متحدہ کی ہزاریہ اہداف (میلینیئم ڈیویلپمنٹ گولز) رپورٹ کے مطابق پاکستان میں افراط زر کے دوہرے ہندسوں میں داخل ہونے اور اشیائے خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے لوگوں کی قوت خرید کم ہوگئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان ہزاریہ اہداف میں شامل پہلے ہدف یعنی غربت اور بھوک کے خاتمے کے حصول میں ابھی کافی پیچھے ہے اور خدشہ ہے کہ یہ ہدف 2015ء تک حاصل نہیں کیا جاسکے گا۔
اقوام متحدہ نے اس بات پر بھی تشویش کا اظہارکیا ہے کہ مختلف وجوہات کی بنا ء پر دیگر ہزاریہ اہداف بھی اپنی مقررہ معیاد یعنی 2015ء تک حاصل نہیں ہوسکیں گے۔ ان وجوہات میں گزشتہ تین سے چار سالوں کے دوران شرح نمو کا تین فیصد سے بھی کم رہنا، سست معاشی ترقی اور بے روزگاری میں اضافہ شامل ہے۔
عالمی ادارہ خوراک کے اسلام آباد میں ایک نما ئندے امجد جمال کا کہنا ہے کہ ان کا ادارہ گزشتہ کئی سالوں سے حکومت پاکستان کو اس غذائی عدم تحفط کے مسئلے کی نشاندہی کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کا ادارہ پاکستانی حکومت کے ساتھ مل کر ایک ایسے پروگرام پرکام کر رہا ہے جس سے غذائی قلت کی موجودہ صورتحال پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ امجد جمال کا کہنا ہے کہ پاکستان میں گزشتہ چند سالوں کے دوران قدرتی آفات اور سلامتی کی خراب صورتحال بھی غذائی عدم تحفظ میذ اضافے کی بڑی وجوہات ہیں۔ انہوں نے کہا, ’’پاکستان میں جو ہنگامی حالات رہے جن میں دو سال مسلسل سیلاب رہے اس سے پہلے لوگوں کی اندرون ملک نقل مکانی کرنے کا بحران بھی اس ملک میں رہا اس سے بھی مارکیٹ پر بڑا اثر پڑا ہے اور پھر ہمیں یہ اہم بات بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان فوڈ سر پلس ملک ہے اس صورتحال میں لوگوں کا غذائی عدم تحفظ کا شکار ہو جانا ایک خطرناک صورتحال ہے۔‘‘
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان نے نئی صدی کے آغاز پر اقوام متحدہ کے رکن ممالک کے ساتھ مل کر یہ عہد کیا تھا کہ وہ ہزاریہ اہداف کو حاصل کرے گا لیکن وہ اپنے اس عہد کو پورا کرنے میں پیچھے دکھائی دیتا ہے جس سے بین الاقوامی سطح پر بھی ملک کا اچھا تشخص نہیں ابھرتا۔
اقتصادی امور کے تجزیہ نگار ڈاکٹر فرخ سلیم کا کہنا ہے کہ پچھلے کچھ سالوں سے ملک کے اندر سیاسی عدم استحکام نے بھی ملک کی مجموعی اقتصادی صورتحال پر منفی اثر ڈالا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کی باہمی چپقلش میں عوام کا خیال نہیں رکھا گیا۔ اسی لیے آئے روز غربت مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ڈاکٹڑ فرخ سلیم کا کہنا ہے کہ موجودہ ملکی صورتحال میں اقوام متحدہ کے ہزاریہ اہداف کا پورا ہونا ایک معجزہ ہی ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’اقوام متحدہ کی غربت کی نئی تعریف کے مطابق جسے وہ کثیر الجہتی غربت کہتے ہیں، وہ پھچلے چار ساڑھے چار سال میں شاید دوہری ہو گئی ہے۔ اگر پہلے چارسے پانچ کروڑ پاکستانی کثیر الجہتی غربت کی تعریف میں آتے تھے تو اب یہ تعداد بڑھ کر آٹھ سے دس کروڑ ہو گئی ہے۔ اس طرح تعلیم کے شعبے میں 63 لاکھ سے زیادہ پاکستانی بچے جنھیں پرائمری سکول میں ہونا چاہیے وہ نہیں ہیں۔ دنیا کا کوئی اور ملک ایسا نہیں ہے جس میں اتنی بڑی تعداد میں بچوں کی تعداد سکولوں سے باہر ہو۔‘‘
اقوام متحدہ کی رواں سال کے لیے ہزاریہ اہداف رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے پینے کے صاف پانی کے زرائع ، ایڈزاور دیگر بیماریوں کے خاتمے اور صنفی مساوات کے اہداف کے حصول میں پیشرفت کی ہے۔ پاکستان نےہزاریہ اہداف کے آٹھویں اور آخری ہدف یعنی ترقی کے لیے گلوبل پارٹنر شپ کے حصول میں ابھی تک توقع سے زائد پیشرفت کی ہے۔
اس رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ ہزاریہ اہداف کے حصول کی ڈیڈ لائن سال 2015ء تیزی سے قریب آرہا ہے ایسے میں حکومتوں بین الاقوامی برادری، سول سوسائٹی اور نجی شعبے کو ان اہداف کو حاصل کرنے کے لیے اپنی کوششیں تیز کرنا ہوں گی۔
رپورٹ: شکور رحیم
ادارت: افسر اعوان