پاکستانی انٹرنیٹ صارفین اس سال گوگل پر کیا تلاش کرتے رہے؟
11 دسمبر 2024سرچ انجن گوگل نے حال ہی میں سال 2024ء میں پاکستان میں سب سے زیادہ تلاش کی جانے والی شخصیات، ڈراموں، ٹیکنالوجیز، کھانوں کی ترکیبات اور کھیلوں کی فہرست کے ساتھ ساتھ گوگل سے پوچھے جانے والے سوالات کی جو فہرست جاری کی ہے، وہ پاکستانی انٹرنیٹ صارفین کی سوچ، مزاج اور حالات کی بھی عکاسی کرتی ہے۔
اس سال گوگل پر تلاش کیے جانے والے دس بڑے سوالوں میں سر فہرست فروری کے عام انتخابات کے موقعے پر پوچھا جانے والا یہ سوال تھا کہ پولنگ اسٹیشن کی تلاش کیسے کریں؟ سیاسی تجزیہ کار سلمان عابد کے مطابق یہ وہ وقت تھا، جب پاکستان میں ایک سیاسی جماعت کے انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی لگا دی گئی تھی اور اس کا انتخابی نشان بھی لے لیا گیا تھا۔ ایسے میں لوگوں کی بڑی تعداد نے پولنگ سٹیشنوں کی معلومات کے لیے گوگل سے مدد لی۔ ان کے بقول،'' یہ رجحان بعد ازاں انتخابی نتائج میں بھی ظاہر ہوا۔‘‘
اس کے علاوہ گوگل پر سرچ کئے جانے والے سوالات میں استعمال شدہ گاڑی کیسے خریدیں، پھولوں کو کس طرح زیادہ دیر تک تازہ رکھیں، کمپیوٹر میں یوٹیوب ویڈیوز کیسے ڈاؤن لوڈ کریں، سرمایہ کاری کے بغیر کیسے کمائیں، جینز سے گھاس کا داغ کیسے نکالا جائے، گھٹنے کی چوٹ کے بعد دوبارہ ورزش کس طرح شروع کی جائے اور ورلڈ کپ براہ راست کیسے دیکھیں، جیسے متنوع سوالات شامل تھے۔
فاسٹ یونیورسٹی کے ایک طالب علم فواد احمد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ گوگل کی اس فہرست میں بعض ایسے حیران کن سوالات بھی شامل ہیں، جن کی لاجک یا منطق ہماری سمجھ سے باہر ہے۔ ان کے مطابق اس سال پاکستانیوں نے گوگل پر یہ بھی پوچھا، ’’دادی کے مرنے سے پہلے لاکھوں روپے کیسے کمائے جائیں۔‘‘
تجزیہ کار سلمان عابد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ سستی کار کیسے خریدیں یا لاکھوں روپے کیسے کمائیں، جیسی سرچز سے پاکستانی معاشرے میں پائے جانے والے معاشی اضطراب کا بھی اندازہ ہوتا ہے ۔ سلمان عابد کے بقول اس کے علاوہ بغیر سرمایہ کاری کے لاکھوں روپے کمانے کے سوالات شارٹ کٹ کے ذریعے امیر بننے کے رجحان کو بھی ظاہر کرتے ہیں۔
گوگل کی فہرست کے مطابق پاکستانی اس سال سب سے زیادہ ایرانی فوٹو گرافر عباس عطار کو سرچ کرتے رہے۔یہ تو معلوم نہیں کہ عباس عطار پاکستانیوں کی خصوصی توجہ کا مرکز کیوں بنے لیکن بعض ماہرین کا خیال ہے کہ شاید عباس عطار کو پاکستان میں سب سے زیادہ سرچ کیے جانے کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اس سال ان کی 80 ویں سالگرہ کے موقع پر گوگل کی جانب سے خصوصی ڈوڈل جاری کیا گیا تھا۔جس سے ہو سکتا ہے کہ لوگوں میں ان کے بارے میں جاننے کی تحریک پیدا ہوئی ہو۔
پاکستان میں سال دو ہزار چوبیس میں سب سے زیادہ سرچ کی جانے والی شخصیات میں ایٹل عدنان، ارشد ندیم، ثناء جاوید، ساجد خان، شعیب ملک، حریم شاہ، مناہل ملک، زویا ناصر اور مکیش امبانی وغیرہ شامل ہیں۔
بعض مبصرین کے نزدیک یہ بات بھی حیران کن ہے کہ پاکستانیوں نے اسٹیبلشمنٹ یا سیاسی حکومت کے عہدیداروں اور سیاسی جماعتوں کے رہنماوں کی بڑی تعداد کے بارے میں معلومات حاصل کرنے میں کوئی خاص دلچسپی ظاہر نہیں کی ۔تجزیہ کار سلمان عابد کے بقول، ''اب ملک کے حالات بدل گئے ہیں۔ عوام کی سرچ کا یہ ٹرینڈ ان کے غصے اور احتجاج کو بھی ظاہر کر رہا ہے ان کے بقول گوگل سرچز پر کسی سیاست دان یا حکومتی نمائندے کو توجہ نہ ملنے کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ عوام کو ان لوگوں سے جو توقعات تھیں وہ پوری نہیں ہو سکیں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، '' اب عوام نے اس طرف دیکھنا یا ان سے امید لگانا بند کر دیا ہے۔‘‘
کھیلوں کے حوالے سے کرکٹ اور اس کی بھی شارٹ فارم یعنی ٹی 20 ورلڈ کپ سے متعلق سرچ ٹاپ پر رہی، جس کے بعد پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان کھیلا گیا ایک میچ دوسرے نمبر پر رہا۔ تیسرے پر پاکستان بمقابلہ بنگلادیش، چوتھے پر پاکستان بمقابلہ آسٹریلیا جبکہ پاکستان بمقابلہ بھارت پانچویں نمبر پر رہا۔
بھارتی فلم ہیرا منڈی کو پاکستان میں سب سے زیادہ سرچ کیا گیاجبکہ دو ہزار چوبیس میں بنانا بریڈ بنانے کی ترکیب کو سب سے زیادہ سرچ کیا گیا۔ ٹیکنالوجی کے شعبے میں آرٹیفیشل انٹیلی جنس (اے آئی) ٹیکنالوجی پر مبنی چیٹ جی پی ٹی لوگوں کی توجہ کا مرکز بنی رہی۔
سینئر صحافی نسیم زہرہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ گوگل سرچز پر پاکستانی لوگوں کی کرکٹ، کھانوں، ڈراموں یا نئی ٹیکنالوجی کی طرف پیش قدمی سے یوں لگتا ہے کہ وہ اس مشکل سال میں اپنی تفریح ، اپنی خوشی اور اپنی بہتری کی تلاش میں رہے۔ انہوں نے کہا، '' وہ ملک کے اقتصادی حالات، سیاسی جھگڑوں اور معاشی بحرانوں سے منہ پھیر کر کچھ وقت اپنی من پسند چیزوں کی طرف گذارتے رہے جس سے ان کو خوشی ملے اور ان کے اندر کوئی کامیابی کا احساس پیدا ہو۔‘‘
ایک سافٹ ویئر انجیئر محمد بن متین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان میں لوگوں کا رجحان خبروں کی بجائے انٹرٹینمنٹ کی طرف ہوتا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا، ''مین سٹریم میڈیا کی جگہ لوگ سوشل میڈیا سے معلومات لیتے ہیں۔ ان کے بقول پاکستانیوں کا چیٹ جی پی ٹی اور اے آئی کی طرف جانا حیران کن نہیں کیونکہ یہ ٹیکنالوجی اب لوگوں کے مئسلے حل کرتی ہے، انہیں درست مشورے دیتی ہے اور ان کے کام آسان کر دیتی ہے اور یہ آج کی ضرورت بن چکی ہے۔‘‘