پاکستانی بمباری میں آٹھ افراد ہلاک، افغان طالبان کا الزام
18 مارچ 2024کابل میں برسراقتدار طالبان کی حکومت نے آج بروز پیر پاکستان پر افغانستان کے سرحدی علاقوں میں فضائی حملے کرنے کا کا الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ ان کارروائیوں میں آٹھ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اس حوالے سے اپنے بیان میں مبینہ طور پر پاکستان کی جانب سے افغانستان کی خود مختاری کی خلاف ورزی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ آج "صبح تقریباﹰ تین بجے پاکستانی طیاروں" کی جانب سے دو صوبوں، خوست اور پکتیکا میں پاکستان اور افغانستان کی سرحد کے قریب "شہریوں کے گھروں پر بمباری کی گئی"۔
بیان کے مطابق ان واقعات میں پکتیکا میں تین خواتین اور تین بچے، جبکہ خوست میں دو خواتین ہلاک ہو گئیں۔
ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ طالبان کی حکومت "ان حملوں کی سخت مذمت کرتی ہے اور اس غیر ذمہ دارانہ فعل کو افغانستان کی خود مختاری کے خلاف ورزی قرار دیتی ہے"۔
پاکستان کے دفتر خارجہ یا فوج کی جانب سے اس حوالے سے اب تک کوئی باضابطہ بیان سامنے نہیں آیا ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز نے بھی ان دونوں اداروں سے افغانستان کے الزامات پر پاکستان کا موقف لینے کے لیے رجوع کیا تھا اور اسے بھی ان کی جانب سے فوری طور پر کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔
طالبان حکومت کے پاکستان پر تازہ الزامات کو دو دن پہلے پاکستان میںدہشت گردی کے ایک واقعے کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے، جس میں خود کش بمباروں نے افغان سرحد کے قریب فوج کی ایک چوکی پر حملہ کیا تھا۔ اس حملے میں سات فوجی اہلکار ہلاک ہوگئے تھے۔
سن 2021 میں افغانستان میںطالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ہی کابل اور اسلام آباد کے مابین کشیدگی بڑھی ہے اور اس دوران پاکستان یہ دعویٰ بھی کرتا رہا ہے کہ دہشت گرد گروپ پاکستان میں حملوں کے لیے افغان سر زمین کا استعمال کر رہے ہیں۔
تاہم طالبان حکومت اس پاکستانی دعوے کی تردید کرتی رہی ہے۔
اپنے آج کے بیان میں بھی ذبیح اللہ مجاہد نے کہا، "امارت اسلامیہ افغانستان کسی کو افغان سرزمین استعمال کر کے سکیورٹی پر سمجھوتہ کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔"
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کو اپنی "نااہلی اور مسائل" کے لیے افغانستان کو ذمہ دار نہیں ٹھہرانا چاہیے اور خبردار کیا کہ آج ہونے والی کارروائیوں کی طرح کے واقعات کے "برے نتائج سامنے آئیں گے، جو پاکستان کے کنٹرول میں نہیں رہیں گے"۔
م ا ⁄ اا (اے ایف پی، اے پی، روئٹرز)