پاکستانی ٹیم کو ’بزدلی‘ کی سزا ملی، وقار یونس
11 نومبر 2013پاکستان کومتحدہ عرب امارات میں جنوبی افریقہ کے ہاتھوں ون ڈے سیریز میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ شارجہ میں ڈوئچے ویلے کو دیے گئے ایک انٹرویو میں وقار یونس کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی کرکٹ میں بارہا ناکام رہنے والے کھلاڑی ڈومیسٹک کرکٹ میں جا کر رنز کے انبار لگا کر پھر ٹیم میں واپس آجاتے ہیں اور نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات رہتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارا ڈومیسٹک کرکٹ کا نظام کتنا پست ہے۔
وقار یونس کا کہنا تھا کہ محمد حفیظ اس کی سب سے بڑی مثال ہے، ’’وہ ہر بار پندرہ بیس رنز بنا کر آوٹ ہو جاتا ہے۔ اس طرح ٹیم کیسے جیت سکتی ہے؟‘‘ وقار کے بقول، ’’حفیظ کی کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی، وہ آوٹ ہونے کے بعد ادھر ادھر امپائرز کی جانب دیکھتے ہیں، ہمیں بہانے بند کر کے اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔‘‘
وقار یونس کا کہنا تھا، ’’جو لوگ مصباح کو ہٹانے کی باتیں کرتے ہیں انہوں نے دیکھ لیا کہ کپتانی کے امیدوار حفیظ کی اپنی حالت کیا ہے۔ سابق کوچ کے مطابق کپتانی اور بیٹنگ میں مصباح اپنا کردار خوش اسلوبی سے ادا کر رہا ہے اس کے مستقبل کا سوال اٹھانے فضول سی بات ہے۔‘‘
وقار یونس نے کہا کہ کھل کر کرکٹ کھیلنا پاکستان کرکٹ کی پہچان تھی اور امارات میں ماضی میں ہماری کامیابیاں بھی اسی رویے کی مرہون منت تھیں مگر موجودہ ٹیم نے بزدلی دکھائی، جس کا نتیجہ چوتھے میچ ہی میں سامنے آگیا۔ وقار نے خبردار کیا کہ اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اگر ٹیم نے اپنا وطیرہ نہ بدلا تو دورہ جنوبی افریقہ اور سری لنکا کے خلاف کھیلنے کے بعد ٹیم کی کارکردگی میں مزید تنزلی ہوگی۔
پاکستان کرکٹ کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا جب کسی غیر ملکی دورے میں ٹیم میں کوئی دائیں ہاتھ کا فاسٹ باؤلر جگہ نہ بنا سکا۔ وقار کے مطابق باؤلنگ کو دوش نہیں دیا جا سکتا۔ دراصل ہماری بیٹنگ میں دو ساٹھ تو دور کی بات ہے دو چالیس رنز کا تعاقب کرنے کی بھی اہلیت نہیں۔ ابوظبی کی وکٹ بیٹنگ کی جنت تھی وہاں بھی ہمارے بلے بازوں نے ہتھیار ڈال دیے۔
ملتان کے مڈل آرڈر بیٹسمین صہیب مقصود کو اس سیریز کی دریافت قرار دیا جا رہا ہے۔ صہیب مقصود کی بیٹنگ دیکھ کر متحدہ عرب امارات میں موجود شعیب اختر سمیت تمام کرکٹ پنڈتوں نے اسے سراہا۔ وقار یونس کے مطابق صہیب مقصود کی کامیابی کا راز ان کا قدرتی انداز میں بیٹنگ کرنا تھا۔ وقار کے بقول، ’’ پہلی سیریز کھیلنے کے باوجود صہیب اپنے فطری کھیل سے دستبردار نہیں ہوئے، باقی سب ڈر ڈر کر کھیل رہے تھے، صہیب نے منصوبہ بندی سے مثبت انداز اپنایا اور اچھی کارکردگی دکھانے میں کامیاب رہے۔‘‘ دو نصف سینچریاں بنانے کے بعد صہیب مقصود کا کہنا تھا کہ انہیں افسوس ہے کہ وہ ٹیم کو نہ جتوا سکے۔
سابق کپتان انضمام کے اسٹائل پر کھیلنے والے چھبیس سالہ صہیب کہتے ہیں کہ لوگوں نے ان سے کافی توقعات وابستہ کر لی ہیں اور جب ایسا ہوتا ہے تو آپ کو اور زیادہ ذمہ داری سے کھیلنا پڑتا ہے، ’’میری کوشش ہوگی کہ آئندہ میچوں میں اپنے مداحوں کی توقعات پر پورا اتروں اور ٹیم کو کامیابیاں دلواؤں۔‘‘ صہیب نے کہاکہ ہوم سیریز ہارنا افسوسناک ہے مگر اب ٹوئنٹی ٹوئنٹی سیریز جیتنے کی کوشش کریں گے، ’’ٹوئنٹی ٹوئنٹی سیریز میں ہماری پاکستانی ٹیم عالمی سطح پر دوسرے نمبر پر ہے اور ہم کامیابی کے لیے پرامید ہیں۔‘‘
پاکستانی کپتان مصباح الحق کا کہنا تھا کہ ون ڈے سیریز ہارنے کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں البتہ بیٹسمینوں کو اپنے طور طریقے بدلنے ہوں گے۔ مصباح نے کہا، ’’پہلے ہمارے پاس عبدالرزاق اور اظہر محمود جیسے آل راونڈر ہوتے تھے اب باؤلرز میں بیٹنگ کی باکل اہلیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس سے بھی بیٹسمین دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔‘‘