پاکستانی کرکٹ کی بدحالی، ’ذمہ دار میں نہیں‘
13 مئی 2015خبر رساں ادارے اے ایف پی کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کرکٹ بورڈ کے حکام کو ٹیم کی مایوس کن کارکردگی کو بہتر کرنے کے لیے فوری اقدامات کرنا ہوں گے کیونکہ عنقریب زمبابوے کی صورت میں چھ سال کے بعد کوئی بین الاقوامی ٹیم پاکستان کا دورہ کرنے والی ہے۔
1992ء کا عالمی کپ جیتنے والی ٹیم کے کپتان عمران خان کہتے ہیں کہ بنگلہ دیش کے خلاف ایک روزہ میچوں کی سیریز ہارنا ’نا قابل تصور‘ تھا جبکہ رمیز راجہ کا خیال ہے کہ پاکستانی ٹیم قومی کرکٹ کی تاریخ میں سب سے نچلی سطح پر ہے۔ دوسری جانب کرکٹ کا نگران ادارہ نظام کی خرابی کو شکست کا ذمہ دار قرار دے رہا ہے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین شہر یار خان نے ملک میں فرسٹ کلاس کرکٹ کے نظام کو بحال کرنے کے لیے سنجیدگی سے کوششیں کرنے کا وعدہ کیا ہے:’’فرسٹ کلاس کرکٹ کا نظام مکمل طور پر ناکارہ ہو چکا ہے اور کھلاڑیوں کا فٹنس کا معیار دنیا بھر میں سب سے خراب ہے۔‘‘ بنگلہ دیش کے دورے سے قبل کئی کھلاڑی فٹنس کے مسائل کا شکار ہو گئے تھے اور اس سے واضح ہوتا ہے کہ حکام نے ان کھلاڑیوں کو مناسب میچ پریکٹس کے بغیر ہی بین الاقوامی کرکٹ میں شامل کرنے کی کوشش کی تھی۔
پاکستان ٹیم کے ایک اور سابق کپتان انضمام الحق نے کہا کہ نوجوان کھلاڑیوں کو انگلینڈ، آسٹریلیا یا جنوبی افریقہ جیسے ممالک کا دورہ کرانا چاہیے:’’ فاسٹ بالر وہاب ریاض اور بیٹسمین عمر اکمل 2009ء میں آسٹریلیا کے دورے کے بعد کھُل کر سامنے آئے تھے۔‘‘
دوسری جانب کچھ ناقدین کوچ وقار یونس کو اس عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔ سابق وکٹ کیپر راشد لطیف کہتے ہیں کہ وقار یونس کو اس دورے کے دوران ٹیم کی ناقص کارکردگی کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے یہ عہدہ چھوڑ دینا چاہیے:’’بنگلہ دیش کی کرکٹ میں بہت بہتری آئی ہے لیکن جس طرح سے پاکستانی ٹیم اُن سے ہاری ہے، اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور اس کی لیے ٹیم انتظامیہ ذمہ دار ہے۔‘‘
زمبابوے کی ٹیم بائیس مئی سے اکتیس مئی تک پاکستان میں ہو گی اور اس دوران دو ٹی ٹوئنٹی اور تین ایک روزہ میچز کھیلے جائیں گے۔ مارچ 2009ء میں لاہور میں سری لنکن ٹیم پر ہونے والے حملے کے بعد سے کسی بھی ٹیسٹ کرکٹ ٹیم نے پاکستان کا دورہ نہیں کیا ہے۔ بنگلہ دیش کے ہاتھوں ایک روزہ سیریز میں تین صفر سے شکست کھانے کے بعد ون ڈے انٹرنیشنل کی عالمی درجہ بندی میں پاکستان نویں نمبر پر پہنچ گیا ہے۔ 2002ء سے اس فہرست کو ترتیب دیا جا رہا ہے اور گرین شرٹس پہلی مرتبہ اس نچلے مقام پر پہنچے ہیں۔ اگر پاکستان کی پوزیشن بہتر نہ ہوئی تو وہ 2017ء میں انگلینڈ میں ہونے والی چیمپیئنز ٹرافی میں بھی حصہ نہیں لے سکے گا۔ اس ٹورنامنٹ میں آٹھ بہترین ٹیموں کو ہی شامل کیا جاتا ہے۔