’پسینے کی کانیں‘: کپڑے کی صنعت کا ایک تاریک پہلو
21 اپریل 2023بنگلہ دیش میں دس سال قبل ایک نو منزلہ گارمنٹ فیکٹری رانا پلازہ کے انہدام میں ساڑھے گیارہ سو کے قریب افراد کی ہلاکت نے فاسٹ فیشن کے مہلک نتائج کو نمایاں کر دیا تھا۔ اگرچہ اس سانحے سے فیشن کی صنعت میں کپڑوں کے پہاڑوں کی تیاری میں مصروف اعلیٰ برانڈز پر گارمنٹ فیکٹریوں کے معیار کو یقینی بنانے کے لیے دباؤ پڑا لیکن ٹیکسٹائل کی صنعت میں یہ بدسلوکی اب بھی جاری ہے۔
دارالحکومت ڈھاکہ کے قریب رانا پلازہ کا انہدام بنگلہ دیش اور دیگر ایشیائی ممالک میں ٹیکسٹائل فیکٹریوں میں ہونے والی تباہی کے سلسلے کا بدترین واقعہ تھا۔ خیال رہے کہ بنگلہ دیش چین کے بعد دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ملبوسات برآمد کرنے والے ملک ہے۔
فاسٹ فیشن کا شکار غریب مزدور
ایک سال قبل ڈھاکہ میں امریکی ریٹیل کمپنی وال مارٹ کے لیے ملبوسات تیار کرنے والی ایک ٹیکسٹائل فیکٹری میں آگ لگنے سے کم از کم ایک سو گیارہ مزدور ہلاک ہو گئے تھے۔ اسی طرح پاکستان کے شہر کراچی میں جرمن ڈسکاؤنٹ چین کِک کے لیے جینز تیار کرنے والی ایک فیکٹری میں آگ لگنے سے اڑھائی سو مزدور ہلاک ہو گئے تھے۔
پرائمارک اور بینیٹن جیسے مغربی برانڈز کے لیے کپڑے تیار کرنے والی رانا پلازہ فیکٹری میں وسیع تباہی ایک اہم موڑ ثابت ہوئی۔ اس حادثے کے بعد سرفہرست برانڈز، خوردہ فروشوں اور ٹریڈ یونینوں نے سخت جانچ پڑتال کے تحت بنگلہ دیشی فیکٹریوں میں حفاظتی حالات کو بہتر بنانے کے لیے مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا۔
اس کے بعد سے تقریباً اٹھارہ سو سے زائد فیکٹریوں کا معائنہ کیا جا چکا ہے۔ اس معائنے کے بعد زیادہ تر فیکٹریوں کو مکمل یا تقریباً مکمل طور پر محفوظ قرار دیا گیا ہے۔ اگرچہ بنگلہ دیش میں سن دو ہزار تیرہ کے بعد سے کسی ٹیکسٹائل فیکٹری میں کوئی بڑی تباہی نہیں آئی، لیکن اس طرح کے سانحات دیگر جگہوں پر رونما ہوتے رہتے ہیں۔
بھارتی دارالحکومت نئی دہلی اور مراکش میں غیر قانونی گارمنٹس فیکٹریوں میں لگنے والی آگ سے متعدد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ سن دو ہزار اکیس میں مراکش کے بندرگاہی شہر تانگیر میں ایک غیر قانونی کارخانے کے تہہ خانے میں پانی بھرنے سے اٹھائیس افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
ایغوروں کا استحصال
چین پر الزام ہے کہ اس نے شمال مغربی سنکیانگ کے علاقے میں رہنے والی ایغور مسلم اقلیت کے دس لاکھ سے زیادہ افراد کو از سر نو سیاسی تعلیم کے کیمپوں میں ڈال رکھا ہے اور ان میں سے کچھ سے کپاس کے کھیتوں میں جبری مشقت لی جاتی ہے۔ بیجنگ ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہتا ہےکہ وہ مذہبی انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے کے لیے پیشہ ورانہ تربیت کے مراکز چلا رہا ہے۔ ایڈیڈاس، گیپ، نائکی اور پوما سمیت عالمی برانڈز اس وقت اس تنازعے کی زد میں آئے، جب یہ بات سامنے آئی کہ یہ مذکورہ عالمی برانڈ سنکیانگ میں پیدا کی جانے والی کپاس استعمال کر رہے ہیں۔ سنکیانگ دنیا میں کپاس کی رسد کا پانچواں حصہ پیدا کرتا ہے۔
سن دو ہزار اکیس میں فرانسیسی مجسٹریٹس نے ان دعووں کی تحقیقات شروع کیں کہ یونیکلو اور زارا کے مالکان سمیت چار فیشن گروپس سنکیانگ میں جبری مشقت سے مستفید ہو کر انسانیت کے خلاف جرائم کے مرتکب ہوئے۔
کم اجرتوں کا مسئلہ
پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش میں ٹیکسٹائل ورکروں کی معمولی تنخواہوں پر اکثراعتراض اٹھایا جاتا ہے، لیکن فاسٹ فیشن مہیا کرنے والوں کے ہاں کم تنخواہ دینا یورپ اور امریکہ میں بھی ایک مسئلہ ہے۔
کم اجرت کے مسئلے نے دنیا بھر اور خاص طور پر ایشیا میں احتجاج کو جنم دیا ہے۔ کمبوڈیا میں برسوں کے پرتشدد اور مہلک مظاہروں کے بعدگارمنٹس کے شعبے میں کام کرنے والے کارکنوں نے آخر کار دو سو ڈالری کی کم از کم ماہانہ اجرت کا ہدف حاصل کر لیا، جو خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں زیادہ ہے۔
ماحولیاتی آلودگی
اقوام متحدہ کی سن دو ہزار بائیس میں جاری ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق کپڑے کی صنعت ماحولیاتی آلودگی پھیلانے کا بھی ایک بڑا ذریعہ ہے۔ یہ کاربن کے دو سے آٹھ فیصد عالمی اخراج کے لیے زمہ دار ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ دنیا کے پانیوں کی پچیس فیصد آلودگی اور سمندروں میں مائیکرو پلاسٹک کے اخراج کے ایک تہائی کے لیے ذمہ دار ہے، جو مچھلیوں کے ساتھ ساتھ انسانوں کے لیے بھی ایک زہریلا مادہ ہے۔
ش ر ⁄ ع س (اے ایف پی)