220611 Wüste Klima China
4 جولائی 2011خاص طور پر ملک کے شمالی اور شمال مغربی علاقے بے حد خشک ہیں۔ چین کروڑوں نئے درخت لگاتے ہوئے اور صحرائی علاقوں میں بڑی محنت سے سبزہ اگاتے ہوئے آگے بڑھتی ہوئی ریت کے آگے بند باندھنے اور پھر سے زرخیز زمینیں حاصل کرنے کی کوششیں کر رہا ہے۔
چین کا صحرائی رقبہ تقریباً 2.6 ملین مربع کلومیٹر یعنی جرمنی کے رقبے کا تقریباً سات گنا بنتا ہے۔ ریت کو آگے بڑھنے سے روکنے کی کوششیں چھوٹے چھوٹے مراحل میں آگے بڑھ رہی ہیں۔
یہ شاپوٹُو ہے، چین کے شمال مغربی صوبے نِنگ سیا کا وہ علاقہ، جہاں دور دور تک ریت کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ صحرا کے کنارے پر گھاس پھونس کے چوکور شکل کے بے شمار گٹھے ہاتھوں سے ریت میں دبائے جا رہے ہیں تاکہ زمین کو مضبوط کیا جا سکے۔ ہر گٹھا ایک ضرب ایک میٹر سائز کا ہے۔
مقامی انتظامیہ کے ایک عہدیدار ژونگ سُو چَینگ کے مطابق یہ طریقہ ریت کو آگے بڑھنے سے روکنے کے سلسلے میں کامیاب ثابت ہوا ہے تاہم ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتے ہیں:’’ریت کو زیادہ وسیع محاذ پر آگے بڑھنے سے روکنا بہت مشکل ہے۔ ہم محض صحراؤں کے کناروں پر، ریلوے لائن کی دونوں طرف، سڑکوں کے کنارے اور دیہات اور شہروں کے اردگرد ہی یہ طریقہ استعمال کر پا رہے ہیں۔ اس کے سوا کوئی اور چارہ نہیں ہے۔ ہم لوگوں کی بقا کو یقینی بنانے کے لیے ریت پر قابو پانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔‘‘
گھاس پھونس کے گٹھے زمین کو اس حد تک مضبوط بنا دیتےہیں کہ اُن کے اوپر تازہ گھاس اُگانے کا عمل شروع کیا جا سکتا ہے۔ جب ایک بار گھاس اُگنے لگتی ہے تو پھر زیادہ بڑے پودوں کے لیے راہ ہموار ہو جاتی ہے۔ اسی طریقے پر عمل کرتے ہوئے شاپوٹُو کے اردگرد پھل دار درختوں کے باغات اور انگوروں کی بیلیں لگائی گئی ہیں۔ اس کے برعکس نِنگ سیا صوبے کے دیگر علاقوں میں لوگ صحرا کے خلاف اپنی جنگ ہار چکے ہیں۔
نئے مکانات پر مشتمل اِس بستی میں ما ڈَینگ پَینگ اپنے گھر کے پچھواڑے میں بھیڑوں کو چارہ ڈال رہا ہے۔ وہ رضاکارانہ طور پر یہاں نہیں رہ رہا بلکہ وہ اور اُس کا خاندان صحرا کے ڈر سے بھاگے ہیں اور حکومت نے اُنہیں اِس نئی آبادی میں لا کر بسایا ہے۔ وہ بتاتا ہے:’’جب ریت آتی تھی تو وہ سیاہ ہوا کی طرح دکھائی دیتی تھی۔ اُسے روکنا ناممکن ہوتا تھا۔ ہم اپنے اپنے گھروں میں چھپنے پر مجبور ہو جاتے تھے اور باہر نکل ہی نہیں سکتے تھے۔‘‘
نِنگ سیا کا صوبہ ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا۔ شمالی چین کا یہ علاقہ بے حد سرسبز ہوا کرتا تھا تاہم موسمیاتی تبدیلیوں اور پانی کے غیر ذمہ دارانہ استعمال کے باعث اب بہت کچھ غائب ہو چکا ہے۔ اس صورتحال کی ایک بڑی وجہ 70ء کے عشرے کی زرعی اصلاحات بھی ہیں، جن کے بعد مویشیوں کی تعداد پر سرکاری کنٹرول ختم ہو گیا اور ہر کنبے نے پانی اور گھاس پر دباؤ کی پروا کیے بغیر اپنی اپنی بھیڑوں اور بکریوں کی تعداد بڑھانا شروع کر دی۔ یوں سبزہ غائب ہونا شروع ہو گیا اور زرخیز زمین بالآخر صحراؤں میں تبدیل ہوتی گئی۔
اب حکومت نے چرواہوں کو اپنی بھیڑ بکریاں باہر کھلی فضا میں چرانے سے منع کر دیا ہے۔ ساتھ ساتھ پورے شمالی چین میں کروڑوں درخت لگا کر ایک طرح کی سبز دیوار بنائی جا رہی ہے۔ یہاں جس طرح سے صحرائی زمین پر پھر سے سبزہ اگایا گیا ہے، وہ دیگر بہت سے علاقوں کے لیے مثالی حیثیت رکھتا ہے۔ سرکاری اندازوں کے مطابق چین اس طرح کے طریقوں کے ذریعے اپنے صحرائی رقبے کا بیس فیصد حصہ واپَس حاصل کر سکتا ہے لیکن اس سارے عمل میں تقریباً 300 سال لگ جائیں گے۔
رپورٹ: رُوتھ کرشنر (بیجنگ) / امجد علی
ادارت: کشور مصطفیٰ