چڑیا گھر یا وائلڈ لائف سینٹر جانوروں کے لیے بہتر کیا؟
1 جون 2024اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر سن 2020 میں اسلام آباد کا مرغزار چڑیا گھر بند کر دیا گیا تھا۔ اس کی وجہ جانوروں کا مناسب خیال نہ رکھ سکنا بتایا گیا تھا۔ یوں اس چڑیا گھر کو جانوروں کی پناہ گاہ میں تبدیل کرتے ہوئے اس کا انتظام اسلام آباد وائلڈ لائف بورڈ کے حوالے کیا گیا۔ اسلام آباد وائلڈ لائف بورڈ نے پاکستان بھر سے ریسکیو کیے گئے جانوروں کو یہاں لانا شروع کیا اور ان کا مناسب خیال رکھا جانے لگا۔
یوں یہ چڑیا گھر ایک بحالی سینٹر میں تبدیل کر دیا گیا، جو پاکستان میں اپنی نوعیت کا واحد ادارہ ہے۔ مگر کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی جو اس زمین کی مالک ہے وہ اس سینٹر کو دوبارہ عوامی چڑیا گھر بنانے کا ارادہ رکھتی ہے۔
اس سینٹر میں سن 2020 سے 380 کے قریب مختلف جانوروں کا علاج معالجہ کیا جا چکا ہے جبکہ تقریبا پچاس جانور اب بھی اس سینٹر میں موجود ہیں۔ باقی جانور جوں ہی صحت مند ہوتے گئے ان کو ان کی قدرتی رہائش گاہوں میں چھوڑا جاتا رہا۔
اب اس پناہ گاہ میں کچھ ایسے جانور رکھے گئے ہیں، جو انسانوں کے مظالم کی وجہ سے اپنی قدرتی رہائش گاہ نہیں لوٹ سکتے، جن میں کثیر تعداد ان ریچھوں کی ہے، جو کتوں سے لڑائی اور مقابلے کے کھیل میں استعمال ہوتے تھے۔ اب ان جانوروں کے منہ میں دانت بھی نہیں بچے کہ یہ اپنے قدرتی ماحول میں جا کر شکار کر پائیں گے۔
یہاں ایسے طوطے بھی ہیں، جو اپنی قسمت کے حال سے بے خبر انسانوں کی قسمت کا حال بتانے کے لیے فال نکالنے پر مجبور تھے اور کچھ شہباز بھی جو اپنی اونچی پروازوں کے دوران انسانوں کی بنائی ہوئی دھاتی ڈور پھرنے سے اپنے پروں سے ہمیشہ کے لیے محروم ہو گئے ہیں۔
ڈی ڈبلیو کی ٹیم نے جب اس پناہ گاہ کا دورہ کیا، تو یہاں کسی پنجرے میں ریچھوں کو ناچتے دیکھا، تو کسی جگہ کھانے کھلانے والے کے ہاتھوں کو چاٹتے، یہ مناظر کسی چڑیا گھر میں تو نہیں مل سکتے مگر پناہ گاہ میں ضرور دیکھے جا سکتے ہیں، جہاں ان جانوروں کو پیار سے بچوں کی طرح رکھا جاتا ہے۔
اسی پناہ گاہ میں سلطان اور نیلو نامی چیتے کے بچے بھی ہیں، جو اپنی ماں سے بچھڑ کر ایبٹ آباد کی آبادی کے ہجوم میں گم ہو گئے تھے۔ اب وہ اس سینٹر کے ورکرز کے ساتھ کھیلتے کودتے نظر آتے ہیں۔
یہاں انیلا نامی ریچھنی بھی بحالی کے عمل سے گزری ہیں، جس کی ناک میں نکیل ڈال کر تماشہ کرایا جاتا تھا۔ اس نکیل کے وجہ سے اس کے ناک میں انفیکشن ہو گئی تھی۔
اسے بھی وائلڈ لائف کی ٹیم نے ریسکیو کیا تھا۔ یہ آج بالکل صحت مند ہے اور پنجروں میں اٹھکیلیاں کرتی اپنی قدرتی رہائش گاہ، کسی گھنے جنگل میں جانے کو تیار ہے۔
یہاں اس بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ پاکستان میں کسی بھی چڑیا گھر انتظامیہ کا جانوروں کے ساتھ ناروا سلوک کسی سے ڈھکا چھپا ہوا نہیں ہے۔ اسی مرغزار چڑیا گھر میں دو شیر آگ کی نظر ہو چکے ہیں اور کاوان ہاتھی کی کہانی تو عالمی میڈیا کی سرخیاں بن چکی ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر کاوان ہاتھی کو ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہونے کی وجہ سے کمبوڈیا بھیجا گیا۔
رینا سعید خان سعید اسلام آباد وائلڈ لائف بورڈ کی چئرپرسن ہیں، انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ اس جگہ پر 'مارگلہ وائلڈ لائف سینٹر‘ بنانے والے ہیں اور وزارت ماحولیات کی وفاقی وزیر کو اپنا پرپوزل پیش کر چکے ہیں، ''ہم اس زمین پر ملکیت کا دعؤی نہیں کر رہے اور نہ ہی ہمارا ایسا کوئی ارادہ ہے، ہم صرف جانوروں کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ قائم رکھنا چاہتے ہیں، جو پاکستان میں اپنی نوعیت کا پہلا سینٹرہے اور ہم باقی صوبوں کے لیے رول ماڈل بننا چاہتے ہیں۔‘‘
دوسری طرف سی ڈی اے کے محکمہ ماحولیات کے افسر عرفان خان نیازی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ سی ڈی اے کا چڑیا گھر کے بارے میں پلان یہ ہے کہ ہائی کورٹ کے حکم کے مطابق اس جگہ پر عالمی معیار کا چڑیا گھر عوام کے لیے کھولا جائے گا جیسا کہ ہر میٹروپولیٹن شہر میں ہوتا ہے۔ اگر وائلڈ لائف اس جگہ کچھ اور بنانا چاہتا ہے تو اس کو پہلے ہم سے زمین کا ٹائٹل خریدنا پڑے گا، اس کے بغیر اس جگہ پر کوئی اور چیز نہیں بن سکتی۔