چین کا افغانستان میں بڑھتا ہوا کردار
10 فروری 2015چین ہندو کُش کی ریاست افغانستان میں زیادہ سے زیادہ فعال کردار ادا کرنا چاہتا ہے اور وہاں کے ترقیاتی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا ہے۔ اس کا ایک تازہ ثبوت بیجینگ حکومت کی طرف سے افغانستان کے بدامنی کے شکار سرحدی علاقے میں ایک ہائیڈرو الیکٹرک پلانٹ کی تعمیر کے ساتھ ساتھ وہاں سڑک اور پڑوسی ملک پاکستان کو ملانے والی ریلوے لائن کی تعمیر کے لیے غیر معینہ مالیاتی امداد کی یقین دہانی ہے۔
کابل میں سینیئر افغان ، چینی اور پاکستانی سفارتکاروں کی ایک روز پہلے ہونے والی ملاقات کے بعد اس بارے میں افغانستان کی وزارت خارجہ کے ایک ترجمان سراج الحق سراج نے منگل کو ایک بیان دیتے ہوئے کہا کہ چین اس سلسلے میں دیگر امداد کے ساتھ ساتھ مالی امداد بھی کرے گا۔
اُدھر چینی وزارت خارجہ کے ایک ترجمان ہوا چُن ینگ نے ڈیلی نیوز بریفنگ میں بتایا،"چین نے کُنڑ ہائیڈرو پاور پلانٹ اور روڈ کی تعمیر کے علاوہ پاکستان اور افغانستان کو ملانے والی ریلوے لائن کے تعمیری پروجیکٹس میں تعاون پر رضامندی ظاہر کر دی ہے۔‘‘
دریائے کُنڑ پر 1,500میگا واٹ ڈیم کے منصوبے کو ماضی میں محض پاکستان کی حمایت حاصل تھی جو اس کے ذریعے پیدا کردہ بجلی میں سے کچھ خرید سکتا تھا۔ 2013 ء میں پاکستان نے کہا تھا کہ وہ پشاور کو کابل سے ملانے والی ایک موٹر وے اور افغانستان کے سرحدی شہر چمن کو جنوبی شہر قندھار سے ملانے والی ایک ریلوے لائن تعمیر کرے گا۔
کُنڑ افغانستان کے سب سے زیادہ فعال میدان جنگ میں سے ایک ہے جس کی گہری وادیاں اور جنگلات پاکستان سے ملحقہ ہیں اور یہ علاقہ طالبان کے مختلف دھڑوں سے تعلق رکھنے والے جنگجوؤں کا ٹھکانہ بنا ہوا ہے۔
چین کی شمولیت افغانستان میں ان پروجیکٹس کی تیز رفتاری کا سبب بن سکتی ہے۔ چین افغانستان میں بہت بڑے پروجیکٹس میں سرمایہ کاری کرنے جا رہا ہے۔ ان میں سے ایک اہم پروجیکٹ تانبے کی کان کا بھی ہے تاہم عسسکریت پسندوں کی پرتشدد کارروائیوں کے خطرات کے سبب یہ اور پشاور کو کابل سے ملانے والی ریلوے لائن کی تعیمر کا پروجیکٹ اب تک رُکا ہوا ہے۔
افغان وزارت خارجہ کے ترجمان سراج الحق سراج نے کہا ہے کہ چین کی طرف سے ڈیم اور دیگر پروجیکٹس کی سرمایہ کاری میں چین کی طرف سے دی جانے والی امدادی رقم کے بارے میں فیصلہ سہ فریقی یعنی پاکستان، افغانسان اور چین کے مذاکرات کاروں کے اجلاس میں طے کیا جائے گا۔
ایک روز قبل چینی، پاکستانی اور افغان سفارتکاروں کے اجلاس میں شرکاء نے طالبان عسکریت پسندوں کو مذاکرات کی میز پر لانے کے طریقوں پر بھی بات چیت کی تھی۔ یاد رہے کہ چین گزشتہ سال طالبان کے ساتھ بات چیت کے لیے ایک "امن اور مصالحت" فورم کی تجویز پیش کر چُکا ہے۔