چین کے ساتھ ایف ٹی اے پر ملا جلا رد عمل
1 جنوری 2020
اس معاہدے کے پہلے مرحلے کا آغاز سن دو ہزار چھ میں ہوا تھا، جس پر بہت تنقید ہو رہی تھی۔ پہلے معاہدے کے پہلے مرحلے کے بعد کچھ ہی برسوں میں چینی مصنوعات نے پاکستان کی مارکیٹ میں اپنے لیے ایک بڑی جگہ بنا لی تھی اور دونوں ممالک کے درمیان تجارت کا خسارہ بھی بہت بڑھ گیا تھا، جو بیجنگ کے حق میں تھا۔ حکومتی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ حکومت نے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے کے معاہدے کے دوسرے مرحلے کا آغاز کیا ہے۔ آزاد تجارت کے پہلے مرحلے کے بعد چین کی طرف سے پاکستانی صنعت کاروں کے لیے سات سو چوبیس مصنوعات پرسے ڈیوٹی ہٹا دی گئی تھی۔ اب زرعی اجناس سمیت مجموعی طور پر ڈیوٹی سے مبرا اشیا کی تعداد ایک ہزار سینتالیس ہو جائے گی۔
پنجاب سے تعلق رکھنے والے معروف صنعت کار قیصر احمد شیخ کے خیال میں یہ پاکستان کے پاس اچھا موقع ہے کہ وہ اس معاہدے سے فائدہ اٹھائے۔ ''اس معاہدے کے پہلے مرحلے کے مقابلے میں یہ دوسرا مرحلہ پاکستان کے حق میں ہے اور ہماری ٹیکسٹائل، گارمنٹس، سرجیکل گڈز سمیت کئی صنعتوں کو فائدہ ہو سکتا ہے۔‘‘
قیصر احمد شیخ کے بقول،'' ڈالر کے ریٹ گرنے کی وجہ سے پاکستان میں مزدور کی اجرت میں کمی آئی ہے۔ جبکہ چین میں مزدور کی اجرت بڑھتی جارہی ہے۔ تو ہم اپنی مصنوعات کو اب چین بھیج کر وہاں کی بڑی مارکیٹ میں جگہ بنا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ چاول کی بھی چین میں بہت مانگ ہے۔ ہم زرعی مصنوعات بھی چین کو بھیج سکتے ہیں، جس سے ہماری زراعت کو فائدہ ہوگا۔‘‘
دوسری جانب ماہرین اس خوش امیدی کو غیر منطقی سجھتے ہیں۔ ان کے خیال میں معاہدے سے فائدہ چین کو ہی ہونا ہے۔ کراچی کے انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن سے وابستہ معروف معیشت دان محمد حینف آجاری کے خیال میں اس معاہدے سے پاکستانی معیشت کو کوئی فائدہ ہونے نہیں جارہا۔ وہ کہتے ہیں،'' فائدہ ان کو ہوتا ہے جو کچھ پیدا کرتے ہیں۔ ہم گندم سے لے کر کاٹن تک سب باہر سے منگوارہے ہیں۔ ہمارے صنعت کار محنت نہیں کرنا چاہتے اور نہ ہی کوئی معیاری چیز بنانا چاہتے ہیں بلکہ وہ اسمبلنگ کرنا چاہتے ہیں۔ تو ہم چین کو کچھ زیادہ ایکسپورٹ نہیں کر سکیں گے۔ زیادہ تر چیزیں جو ہم چین کو بھیجیں گے وہ زراعت سے منسلک ہیں، اور زراعت میں بہت کم ویلیو ایڈیٹ آئیٹمز کی گنجائش ہوتی ہے۔ تو اس سے چین کو زیادہ فائدہ ہوگا۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان تین سو تیرہ نئی مصنوعات چین بھیج سکتا ہے۔ ''جب کہ ہم چین سے 6786 آئٹمز درآمد کریں گے۔ تو اس میں ہمارا فائدہ کہاں ہے۔ چین پہلے ہی ہمیں تقریباً گیارہ بلین ڈالرز کی اشیا بھیجتا ہے اورہماری ایکسپورٹ چین کے لیے صرف تین بلین ڈالرز کے قریب ہیں۔ اب ہم مزید ان سے چیزیں خریدیں گے تو پاکستان کو فائدہ کہاں ہورہا ہے۔‘‘
کچھ معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ اس معاہدے کے دوسرے مرحلے سے کچھ صنعت کاروں کو فائدہ ہو سکتا ہے لیکن بحیثیت مجموعی اس سے ملک کے عوام کو نقصان ہوگا۔ معروف معیشت دان ڈاکٹر عذرا طلعت سعید کے خیال میں زرعی اجناس کی ایکسپورٹ سے ملک کئی بحرانوں کا شکار ہو سکتا ہے۔ وہ کہتی ہیں،''اگر ہم چاول اور چینی چین کو بیچتے ہیں، تو اس کا یہ مطلب ہوگا کہ ہمیں ایسی چیزیں بڑی مقدار میں اگانی پڑیں گی تاکہ ملکی اور بیرونی دونوں مانگ پوری ہو۔ جس کے لیے بہت سارا پانی چاہیے ہوگا۔ چاول اور گنے میں بہت پانی خرچ ہوتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ کسان وہ فصلیں نہیں اگا پائے گا، جو پاکستانیوں کی اکثریت کھاتی ہے۔ اس سے نہ صرف خوراک کا ایک بحران پیدا ہوگا بلکہ آنے والے وقتوں میں پانی کا مسئلہ اور بھی شدید ہو جائے گا۔‘‘
ڈاکٹر عذرا اس تاثر کو غلط قرار دیتی ہیں کہ چین ہم سے صنعتی مصنوعات لے گا کیونکہ یہاں لیبر سستا ہے۔ ''آپ کوئی ایک شے بتائیں جو پاکستان بنا سکتا ہے اور چین نہیں بنا سکتا۔ وہ اپنے قیدیوں سے پاکستان میں اپنے پروجیکٹس پر کام کرارہے ہیں۔ انہوں نے پاکستانیوں کو رکھنا تک گوارا نہیں کیا۔ اور یہاں لوگ یہ امید لگا رہے ہیں کہ چین ہماری سستی لیبر کو استعمال کرے گا یا ٹیکسٹائل وغیرہ کی پروڈکٹس بڑے پیمانے پر لے گا۔ حقیقت میں ایسا نہیں ہوگا۔‘‘
عبدالستار/ اسلام آباد