چینی جزیرہ مکاؤ: کسینوز ورلڈ اور امریکی تفتیشی عمل
9 جولائی 2013گزشتہ ایک دہائی میں جُوئے کا عالمی محور لاس ویگاس سے تبدیل ہو کر چین کا جزیرہ مکاؤ بن گیا ہے۔ چینی علاقے ہانگ کانگ سے بذریعہ سمندری کشتی ایک گھنٹے میں مکاؤ پہنچا جا سکتا ہے۔ مکاؤ کا اپنا ایک بین الاقوامی ہوائی اڈہ بھی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ امریکا کی جُوئے کی کمپنیوں نے مکاؤ کو آج کی شناخت دی ہے اور اسی طرح مکاؤ نے بھی امریکی کمپنیوں کو نام اور دولت جواباً دی ہے۔ اسی جزیرے پر واقع جُوا خانوں میں اُجرتوں کا معیار امریکی شہر لاس ویگاس سے بہت بہتر ہے اور یہاں کام کرنے والے بہت خُوش ہیں۔ اس کے باوجود ابھی بھی لاس ویگاس کی شامیں حسین اور راتیں جوان خیال کی جاتی ہیں۔
چینی جزیرے مکاؤ میں اب کئی بڑی امریکی کمپنیاں متحرک ہیں۔ ان کمپنیوں پر کاروبار کو وسعت دینے کے حوالے سے ان دنوں نامناسب الزامات بھی سامنے آئے ہیں۔ امریکی ریاست انڈیانا کے کسینوز کاروبار سے متعلق ماہرانہ رائے دینے والے اسٹیو نورٹن کا کہنا ہے کہ بعض ملک ایسے ہیں جہاں مقامی ضابطوں کو توڑتے ہوئے بھی جُوا کھلایا جاتا ہے۔ اسٹیو ٹورٹن کے مطابق جو الزامات سامنے آئے ہوئے ہیں ان کے بارے میں جیوری تفتیشی عمل مکمل کرنے کے لیے مکاؤ میں موجود ہے۔
سارے چین میں مکاؤ ایک واحد جگہ ہے جہاں جُوا غیر قانونی دھندا نہیں ہے۔ ہر ماہ اوسطاً اس جزیرے پر ڈھائی لاکھ سیاح پہنچتے ہیں۔ مکاؤ کا وسطی علاقہ خاص طور پر کسینوز ورلڈ ہے۔ یہ امریکی شہر نیو یارک کے علاقے مین ہٹن جتنا ہے۔ اس شہر پہنچنے والے سیاح چکا چوند روشنیوں اور جِلملاتے ناموں والے کسینوز کے مخصوص وسطی علاقے میں اپنی دولت سے اپنی قسمت آزماتے ہیں۔ ان سیاحوں میں بہت سارے نو دولتیے چینی ہوتے ہیں جو چائے کی چُسکی لیتے ہوئے جُوا خانوں میں تاش کے پتوں سے کھیلی جانے والی گیم باکارا میں مگن ہوتے ہیں۔ مکاؤ بظاہر چین کا حصہ ہے لیکن اس کی اپنی کرنسی ہے اور وہ پتاکا (Pataca) کہلاتی ہے۔
مکاؤ میں کسینو کا بزنس شروع کرنے والوں میں ایک نام شیلڈن ایڈلسن کا ہے۔ ایڈلسن کی کمپنی لاس ویگاس سینڈز (Las Vegas Sands) کے مکاؤ میں چار بڑے کسینوز ہیں لیکن آج کل اس پر قسمت کی دیوی مہربان نہیں ہے۔ وہ اس کمپنی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر بھی ہیں۔ پہلے ان پر اپنے ادارے کے لیے زمین حاصل کرنے میں غلط طریقہ اختیار کرنے پر 70 ملین ڈالر کا جرمانہ عائد کیا جا چکا ہے۔ آج کل انہیں مکاؤ کے اعلیٰ سیاسی اور حکومتی حکام کو رشوت دینے کے الزام کا سامنا ہے۔ امریکی محکمہ انصاف اور محکمہ سکیورٹیز اور ایکسچیینج کمیشن اس مناسبت سے اپنی تفتیش جاری رکھے ہوئے ہے۔
مکاؤ میں صرف لاس ویگاس سینڈز کو ہی امریکی محکموں کی تفتیش کا سامنا نہیں بلکہ دو اور جُوئے خانوں کی بڑی کمپنیاں بھی انکوئری بُھگت رہی ہیں۔ ان میں وائین ریزورٹس (Wynn Resorts) اور ایم جی ایم ریزورٹس (MGM Resorts) نامی کسینوزشامل ہیں۔ وائن ریزورٹس کو مکاؤ یونیورسٹی کی فاؤنڈیشن کو 135 ملین ڈالر کا عطیہ دینے کا سامنا ہے۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ اس عطیے سے وائین ریزورٹس ایک تیسرے کسینو کے لیے زمین حاصل کرنے کو پلان کیے ہوئے تھی۔ ایم جی ایم ریزورٹس نے ایک نئے کسینو کو کھولنے کے لیے جو پارٹنرشپ قائم کی تھی، اس پر امریکی حکام کو شبہ ہے کہ وہ جرائم پیشہ افراد کے ساتھ تھی۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ اہم ہے کہ امریکی حکام چینی جزیرے پر جاری سرگرمیوں کے بارے میں کس حد تک باخبر ہیں۔