ڈرون حملوں کے مخالف کارکن پر ’تشدد‘
15 فروری 2014کریم خان یہ نہیں بتا سکتے کہ انہیں گھر سے اٹھانے کے بعد کئی روز تک حراست میں رکھنے والے کون تھے۔ انہیں جمعے کو رہا کر دیا گیا۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق انہوں نے جمعے کو رات گئے صحافیوں سے بات چیت میں کہا کہ انہیں مارا پیٹا گیا اور ان سے طرح طرح کے سوالات پوچھے گئے۔
انہیں اسلام آباد کے نواح میں پانچ فروری کو علی الصبح تقریباﹰ بیس افراد نے اٹھایا تھا۔ ان میں سے بعض پولیس کی وردیوں میں تھے۔ اس کے کچھ روز بعد ہی وہ امریکی ڈرون حملوں کے بارے میں یورپی ارکانِ پارلیمنٹ کے سامنے شہادت دینے والے تھے۔ اس مقصد کے لیے وہ یورپ کا سفر کرنے والے تھے۔
ان کے وکیل شہزاد اکبر نے بتایا کہ ان کے گھر پر ہلہ بولنے والے لوگوں نے انہیں ایک گاڑی میں ڈالا اور نامعلوم مقام پر لے گئے۔ انہوں نے مزید کہا: ’’انہیں رہا کر دیا گیا ہے۔ ان کے ہاتھ بندھے ہوئے نہیں تھے، اس لیے انہوں نے اپنی آنکھوں پر بندھی پٹی کھول لی اور ٹیکسی لے کر گھر پہنچے۔‘‘
اکبر کا کہنا تھا کہ کریم خان کو میڈیا سے بات چیت نہ کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔ انہیں دھمکی دی گئی تھی کہ انہوں نے ایسا کیا تو وہ لوگ پھر آئیں گے۔
کریم خان نے صحافیوں کو بتایا: ’’پولیس کی وردیوں اور سادہ کپڑوں میں ملبوس کچھ مسلح افراد آدھی رات کے بعد میرے گھر پر آئے اور مجھے اپنے ساتھ لے گئے۔ انہوں نے مجھ پر تشدد کیا۔‘‘
انہوں نے بتایا کہ دوران حراست انہیں ہتھکڑی لگائے رکھی گئی اور مار پیٹ کے دوران ان سے بہت سے افراد کے بارے میں پوچھا گیا۔ انہوں نے کہا: ’’تشدد کے دوران انہوں نے میرے سامنے متعدد نام رکھے اور مجھ سے پوچھا کہ آیا میں ان لوگوں کو جانتا ہوں۔ ان میں سے کچھ ڈرون حملوں کا نشانہ بنے تھے، دیگر لوگوں کو میں نہیں جانتا تھا۔‘‘
کریم خان کا کہنا تھا: ’’وہ مختلف زبانیں بول رہے تھے، پشتو، پنجابی۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ کیا وہ فوجی تھے، پولیس اہلکار تھے یا سویلین۔‘‘
خان کے مطابق وہ نہیں کہہ سکتے کہ انہیں کس لیے اٹھایا گیا۔ انہوں نے کسی کو شناخت کرنے سے بھی معذوری ظاہر کی۔ تاہم بدھ کو ایک پاکستانی عدالت نے حکومت سے کہا تھا کہ انہیں بیس فروری تک پیش کیا جائے یا پھر انہیں حراست میں رکھنے کی وجہ بتائی جائے۔