1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ڈیرہ بگٹی، عسکریت پسندوں اور سیکورٹی فورسز کے درمیان جھڑپ

عبدالغنی کاکڑ ، کوئٹہ11 مارچ 2015

پاکستانی صوبہ بلوچستان کے شورش زدہ ضلع ڈیرہ بگٹی میں سیکورٹی فورسزاورعسکریت پسندوں کے درمیان ایک جھڑپ کے نتیجے میں 7 عسکریت پسند ہلاک جبکہ دو سیکورٹی اہلکار زخمی ہوگئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1Eoig
تصویر: DW/G. Kakar

سیکورٹی فورسز نے علاقے میں سرچ آپریشن کے دوران عسکریت پسندوں کے دو کیمپوں کو تباہ کرتے ہوئے وہاں سے 24 مشتبہ عسکریت پسندوں کو بھی گرفتار کیا ہے، جن کے قبضے سے بڑے پیمانے پر اسلحہ اور گولہ بارود برآمد ہوا ہے۔ فرنٹئر کور بلوچستان کے ترجمان خان وسیع کے بقول ڈیرہ بگٹی کے نواحی علاقے پھتر کالونی ، پیر کوہ اور محمد کالونی میں عسکریت پسندوں کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشن بدھ کی صبح شروع کیا گیا جو کہ تاحال جاری ہے ۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کے دوران خان وسیع کا مزید کہنا تھا، ’’ یہ ایک مشترکہ سرچ آپریشن ہے جو کہ بم دھماکوں، ٹارگٹ کلنگ اورسوئی گیس کی تنصیبات پر حملوں میں ملوث ایک کالعدم عسکریت پسند تنظیم کے روپوش ارکان کے خلاف شروع کیا گیا ہے۔ ڈیرہ بگٹی میں اس کالعدم تنظیم کے کئی کیمپ قائم ہیں، جہاں حملوں کے بعد ملزمان روپوش ہو جاتے ہیں ۔ یہ آپریشن اس وقت تک جاری رہے گا، جب تک ان تمام کیمپوں کو ختم نہیں کر دیا جاتا۔‘‘

ایف سی ترجمان نے مزید بتایا کہ ٹارگٹڈ آپریشن میں فورسز کی رسد کے لیے ہیلی کاپٹروں کو بھی استعمال کیا جا رہا ہے اور ڈیرہ بگٹی کے شورش زدہ علاقوں میں حکومتی رٹ بحال کرنے کے لیے فورسز کی بھاری نفری نے علاقے کو گھیرے میں لے رکھا ہے۔

Pakistan Belutschistan Terror Waffenfund
جنگجوؤں کے قبضے سے بڑے پیمانے پر اسلحہ اور گولہ بارود برآمد ہوا ہےتصویر: DW/A.G.Kakar.

خان وسیع نے کہا، ’’ اس خصوصی آپریشن میں گھر گھر تلاشی لی جا رہی ہے اور عسکریت پسندوں کا گڑھ سمجھا جانے والا پیر کوہ کا علاقہ بھی مکمل طور پرفورسز کے گھیرے میں ہے۔ روپوش عسکریت پسند موقع سے فرار ہونے کی کوشش میں بھر پور مزاحمت کر رہے ہیں اوردونوں اطراف سے بھاری ہتھیاراستعمال کیے جا رہے ہیں ۔ تاہم ہم یہ وا ضح کر دینا چاہتے ہیں کہ علاقے سے کوئی عسکریت پسند فرار ہونے میں کامیاب نہیں ہو سکے گا ۔ بہت جلد یہ لو گ قانون کے کٹہرے میں ہوں گے۔‘‘

ڈیرہ بگٹی میں پر تشدد کارروائیوں اورعسکریت پسندوں کے حملوں میں گزشتہ چند سالوں کے دوران درجنوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ بلوچستان میں حکومت مخالف مسلح جدوجہد کا آغاز بھی اس علاقے کے قبائلی سربراہ نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت کے بعد شروع ہوا تھا، اکبربگٹی تراتانی کے علاقے میں پاکستانی کے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں فوجی آپریشن کے دوران ہلاک ہوئے تھے۔

بلوچستان سمیت ملک کے بڑے حصے کو قدرتی گیس اسی ضلع کی تحصیل سوئی سے فراہم ہوتی ہے۔ سوئی اور ڈیرہ بگٹی کے دیگرعلاقوں میں گیس پائپ لائنوں اور پلانٹ پرعسکریت پسندوں کے ہونے والے حملوں کے نتیجے میں اب تک قومی خزانے کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچ چکا ہے ۔

ڈیرہ بگٹی میں حکومت مخالف پر تشدد کاروائیوں میں کالعدم بلوچ عسکریت پسند تنظیم بلوچ ریپبلکن آرمی ملوث ہے جو کہ ان علاقوں میں ہونے والے حملوں کی ہمیشہ ذمہ داری قبول کرتی رہی ہے۔

بی آر اے نامی اس کالعدم تنظیم کا سربراہ بھی نواب اکبر بگٹی مرحوم کا پوتا میر براہمداغ بگٹی ہے، جو کہ بیرون ملک مقیم ہے۔ بلوچستان کی موجودہ مخلوط حکومت نے اوائل میں براہمداغ بگٹی سمیت دیگر بلوچ علیحدگی پسند رہنماوں سے مذاکرات شروع کرنے کی بھی کوشش کی تھی مگر ان رہنماوں نے بامقصد مذاکرات کے لیے تاحال آمادگی ظاہر نہیں کی ہے۔

وزیر اعلی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کچھ عرصہ قبل کوئٹہ میں ایک پریس کانفرنس کے دوران یہ دعویٰ کیا تھا کہ ناراض بلوچ رہنماوں کے ساتھ رابطوں میں پیش رفت ہوئی ہے ۔ تاہم بعد میں کالعدم تنظیموں کے رہنماوں کی جانب سے اس دعوے کی تردید کی گئی اور یہ واضح کیا گیا کہ ڈاکٹر مالک ایک بے اختیار وزیر اعلیٰ ہیں اس لئے ان کے ساتھ مذاکرات نہیں ہو سکتے۔