کابل ميں سہ فريقی سربراہی اجلاس
19 جولائی 2012پاکستان، افغانستان اور برطانيہ کے سربراہان نے اپنی پریس کانفرنس میں مشترکہ طور پر اس بات پر زور ديا کہ کابل انتظاميہ کی جانب سے طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کے ليے کی جانے والی کوششوں ميں پاکستان کا کردار انتہائی اہم ہے۔
افغان صدر حامد کرزئی نے معاملات کے جلد سياسی حل کی ضرورت پر بھی زور ديا۔ واضح رہے کہ گزشتہ کچھ عرصے سے افغان حکومت سن 2014 ميں ملک سے نيٹو افواج کے انخلاء کے پس منظر ميں طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کے لیے کوشاں ہے۔ افغان صدر کے بقول علاقے ميں امن کا قيام ان کا اہم ترين مقصد ہے لیکن یہ کہ طالبان کے جانب سے امن مذاکرات کے عمل کو مکمل طور پر ترک کيا جا چکا ہے۔
اس سے قبل آج صبح برطانوی وزير اعظم ڈيوڈ کيمرون نے اپنے ايک بيان ميں دہشت گرد نيٹ ورک القاعدہ کو خبردار کيا کہ بين الاقوامی برادری سن 2014 ميں افغانستان سے نيٹو افواج کے انخلاء کے بعد بھی افغان حکومت کے ساتھ تعاون کا سلسلہ جاری رکھے گی۔ برطانوی وزير اعظم نے يہ بيان کابل ميں افغان صدر حامد کرزئی کے ساتھ ملاقات کے بعد پہلی پريس کانفرنس میں ديا تھا۔ کيمرون ان دنوں افغانستان کے دورے پر ہيں جہاں انہوں نے بدھ کے روز جنوبی صوبے ہلمند ميں نيٹو افواج ميں شامل برطانوی فوجی دستوں سے ملاقات بھی کی۔
دوسری جانب پاکستانی وزير اعظم راجا پرويز اشرف کا افغانستان کا یہ پہلا دورہ ہے اور حامد کرزئی اور ڈيوڈ کيمرون کے ساتھ بھی يہ ان کی پہلی ہی ملاقات ہے۔ خبر رساں ادارے اے ايف پی کے مطابق اس ملاقات سے قبل پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد سے ايک اعلیٰ حکومتی اہلکار کا کہنا تھا کہ راجا پرويز اشرف آج ہونے والی ملاقات ميں پاکستان کے شمال مغربی علاقوں ميں مبينہ طور پر سرحد پار سے ہونے والی دہشت گردانہ کارروائيوں کا مسئلہ بھی اٹھائيں گے۔ اطلاعات کے مطابق پاکستانی وزير اعظم نے کابل ميں آج پاکستان کے نئے سفارت خانے کا افتتاح بھی کيا ہے۔
واضح رہے کہ کابل انتظاميہ پاکستانی خفيہ اداروں پر طالبان کی مدد کرنے کا الزام عائد کرتی ہے جبکہ پاکستانی حکومت مسلسل ان الزامات کی ترديد کرتی چلی آئی ہے۔ دوسری جانب پاکستانی حکومت کا دعویٰ ہے کہ ملک کے شمال مغرب ميں ہونے والے دہشت گردی سے متعلق واقعات ميں سرحد پار افغانستان کے دہشت گرد ملوث ہيں۔
as / aa / dpa & AFP