کابل میں خودکش، وزیرستان میں ڈرون حملہ
12 جنوری 2011کابل سے موصولہ اطلاعات کے مطابق موٹرسائیکل پر سوار ایک خودکش بمبار نے ملکی پارلیمان کے قریب سلامتی کی ذمہ داری پر مامور اہلکاروں کی بس کو نشانہ بنایا۔
دہشت گردی کی اس واردات میں کم از کم 25 شہریوں کے زخمی ہونے کی بھی اطلاع ہے۔ وزارت داخلہ کے ترجمان زمرئی بشری نے ہلاکتوں اور زخمیوں کی تعداد کی تصدیق کردی ہے تاہم یہ واضح نہیں کیا کہ آیا مارے جانے والوں میں عام شہری بھی شامل تھے یا نہیں۔
ہلاک ہونے والوں میں ملکی انٹیلی جنس ایجنسی، ’ریاست امنیت ملی‘ یا National Directorate of Security NDS کے ایک اہلکار کی ہلاکت کی بھی اطلاع ہے۔ NDS کا البتہ دعویٰ ہے کہ ان کا کوئی اہلکار ہلاک نہیں ہوا بلکہ کچھ اہلکار محض زخمی ہوئے ہیں۔
طالبان کے ایک مبینہ ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔ بتایا جارہا ہے کہ 2001ء میں افغانستان پر امریکی حملے اور طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد، حالیہ کچھ عرصے میں سکیورٹی کی صورتحال میں نمایاں ابتری دیکھی جارہی ہے۔ حکومتی ذرائع کا مؤقف ہے کہ طالبان مخالف کارروائیوں میں تیزی کے باعث عسکریت پسند زیادہ متحرک ہوگئے ہیں۔
گزشتہ سال کے صدارتی انتخابات کے بعد سے دارالحکومت کابل کے گرد سٹیل کی باڑ نصب ہے، جس کے سبب یہاں امن امان کی صورتحال دیگر علاقوں کے مقابلے میں خاصی بہتر ہے۔
اس کے برعکس پاکستان کی سرحد سے ملحق جنوبی اور مشرقی علاقوں میں بدستور شورش برپا ہے۔ جمعہ کو جنوبی علاقے سپین بولدک میں ایک خودکش بمبار نے 17 افراد کو ہلاک کیا۔ اقوام متحدہ کے مطابق بدامنی کے سبب گزشتہ سال لگ بھگ ڈھائی ہزار عام افغان شہریوں کی جانیں ضائع ہوئیں۔
دریں اثنا پاکستان کے زیر انتظام قبائلی علاقے میں ایک مبینہ امریکی ڈرون حملے میں چار مشتبہ عسکریت پسندوں کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں۔
پاکستانی انٹیلی جنس ذرائع کے مطابق یہ حملہ شمالی وزیرستان کے ایک گاؤں، ’حیدر خیل‘ میں منگل اور بدھ کی درمیانی شب کیا گیا تھا۔ یہ علاقے شمالی وزیرستان کے مرکزی قصبے،’میر علی‘ سے 25 کلومیٹر مشرق کی جانب ہے۔ خبر رساں اے ایف پی کے تحت اکھٹے کئے گئے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال لگ بھگ 100 ڈرون حملوں میں 650 سے زائد افراد مارے جاچکے ہیں۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: امتیاز احمد