کراچی میں مجوزہ محدود آپریشن کے فیصلے پر رد عمل
5 ستمبر 2013کراچی میں قیام امن کے لیے آپریشن سمیت ہر قسم کی کارروائی پر سبھی سیاسی جماعتیں متفق ہیں۔ مگر دفاعی امور کے ماہر جمیل یوسف کہتے کہ صورتحال میں بہتری صرف سزاؤں پر عملدرآمد سے ہی ممکن ہے۔ ان کی رائے میں صدر مملکت کو کسی مجرم کی سزا معاف کرنے کا اختیار نہیں ہونا چاہیے۔ ان کے مطابق جرائم پیشہ عناصر سیاسی جماعتوں کی چھتری کے نیچے پناہ لیتے ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’اگر بھتہ خوری کے خلاف ٹاسک فورس بن جائے تو بھتہ مافیا کا ایک مہینے میں خاتمہ ممکن ہے اور یہ مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل ہوسکتا ہے۔‘‘
اس بارے میں صوبائی حکومت کے ترجمان شرجیل میمن کہتے ہیں کہ اگر وفاقی حکومت قوانین میں تبدیلی کے لیے قانون سازی کرے تو صوبائی حکومت اس کے ساتھ ہو گی۔ شرجیل میمن نے اعتراف کیا کہ کراچی میں بھتہ خوری اور لاقانونیت حد سے تجاوز کر چکی ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عارف علوی نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت ایک مخلوط حکومت تھی، لہٰذا اس کے پاس ایک دوسرے پر الزامات لگا کر وقت گزارنے کی گنجائش موجود تھی۔ لیکن اب پیپلز پارٹی صوبے میں اکیلی حکمران جماعت ہے اور اس کے پاس کوئی بہانہ نہیں کہ وہ کراچی میں قیام امن کے لیے کام نہ کر سکے۔
عارف علوی کے مطابق کراچی کے لوگ یومیہ 83 کروڑ روپے مختلف بھتوں کی صورت میں ادا کر رہے ہیں، جس میں سے 21 کروڑ پولیس کو، 22 کروڑ قبضہ مافیا کو، 15 کروڑ جوئے اور سٹے بازی کے اڈوں کو اور 10 کروڑ پانی کی ٹینکر مافیا کو ادا کیے جاتے ہیں۔
عارف علوی کہتے ہیں کہ کراچی کا معاشی قتل ہو رہا ہے اور یہ پاکستان کا اقتصادی قتل ہے۔ ’’ایسی لوٹ مار اور دہشت گردی تو کولمبیا میں بھی نہیں ہوتی۔‘‘ انہوں نے نواز شریف کی قیام امن کے لیے کوششوں کو سراہا اور حکومت کو اپنے بھرپور تعاون کی یقین دہانی کرائی تاہم انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ بے نتیجہ اجلاسوں اور صرف تصاویر اتروانے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ ان کی رائے میں بحالی امن کے لیے جس قانون سازی کی ضرورت ہے، وہ اب تک نہیں کی گئی۔
ایم کیو ایم کے رہنما فاروق ستار نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کی جماعت تین سال پہلے ہی رینجرز کو بااختیار بنانے کی بات کر چکی ہے۔ فاروق ستار کے مطابق وزیر اعظم کو یہ اختیار صوبے سے دلوانے کے لیے خود کراچی آنا پڑا۔ ان کی رائے میں وزیر اعظم کے دو روزہ دورے سے معاملات حل نہیں ہوں گے بلکہ اس کے لیے قانون سازی کرنا ہوگی اور معاملے کو قومی ایجنڈے کے طور پر دیکھنا ہوگا۔
پیپلز پارٹی کے سینیٹر غنی کہتے ہیں کہ گزشتہ پانچ سال میں ان کی پارٹی کی حکومت عوامی توقعات کے مطابق کام نہیں کر سکی۔ ’’قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سربراہوں کے لیے عدالتوں میں کھڑے ہوکر یہ کہنا آسان ہے کہ سیاسی جماعتیں دباؤ ڈالتی ہیں لیکن یہ جان چھڑانے والی بات ہے۔‘‘
اب جبکہ وزیر اعظم نواز شریف رینجرز کو کراچی میں قیام امن کے لیے اختیارات دے چکے ہیں، اس شہر کے باسیوں کو انتظار اس دن کا ہے جب روشنیوں کا شہر کہلانے والے کراچی میں اس کی رونقیں لوٹ آئیں گی۔