کرزئی ملکی مستقبل داؤ پر لگا رہے ہیں، سکیورٹی ناقدین
29 نومبر 2013امریکا کی جانب سے واضح طور پر کہا گیا ہے کہ اگر رواں برس کے اختتام تک افغان صدر حامد کرزئی نے امریکا کے ساتھ باہمی سکیورٹی معاہدے پر دستخط نہ کیے، تو امریکا اور اتحادی ممالک کے لیے سن 2014ء کے بعد افغانستان میں فوجیوں کی تعیناتی کی منصوبہ بندی مشکل ہو جائے گی۔ تاہم افغان صدر کرزئی نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ اس سکیورٹی معاہدے پر دستخط اگلے برس ملک میں صدارتی انتخابات کے بعد ہی ممکن ہوں گے۔ واضح رہے کہ حامد کرزئی افغان دستور کے مطابق اپنی دو مرتبہ کی مدت صدارت مکمل کرنے کو ہیں اور ان کے بعد کسی اور کو یہ عہدہ سنبھالنا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز نے سفارتی ذرائع کے حوالے سے کہا ہے کہ کرزئی کی جانب سے اس اقدام سے یہ خدشات پیدا ہو گئے ہیں کہ امریکا اگلے برس افغانستان سے مکمل فوجی انخلا کا اعلان کر سکتا ہے۔ کرزئی کے اس اقدام پر انہیں ملک میں بھی شدید تنقید کا سامنا ہے، جہاں ناقدین کا خیال ہے کہ وہ افغانستان کے مستقبل کے ساتھ ایک خطرناک کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں۔
روئٹرز کے مطابق اگر اس باہمی سکیورٹی معاہدے پر دستخط نہ ہوئے، تو افغانستان کے لیے کئی بلین ڈالر کی غیرملکی امداد بندش کا شکار ہو سکتی ہے، جس سے افغان معیشت کو شدید نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے اور اس کے نتیجے میں ملک ایک مرتبہ پھر قبائلی فسادات اور خانہ جنگی کا شکار ہو سکتا ہے۔
افغانستان میں تعینات آئی سیف دستوں کے اعلیٰ ترین کمانڈر اور امریکی جنرل جوزف ڈنفورڈ کے مطابق، ’میں نہیں جانتا کہ آیا وہ (کرزئی) ان خطرات سے حقیقی واقف ہیں۔‘
امریکا کے وال اسٹریٹ جرنل سے گفتگو میں جنرل ڈنفورڈ نے کہا، ’کرزئی کی جانب سے اس معاہدے پر فوری دستخط میں ناکامی نہ صرف افغان معیشت کو کمزور کر سکتی ہے بلکہ طاقتور ہمسایہ ممالک کو بھی مداخلت کی شہ دے سکتی ہے، جس کا نتیجہ ملکی سکیورٹی فورسز کی تباہی کی صورت میں نکل سکتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ صدر کرزئی کی جانب سے اس معاہدے پر دستخط نہ کرنے کی وجہ سے افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے ایک غیریقینی کی صورتحال پیدا ہوتی جا رہی ہے، جس سے عام عوام پر کئی طرح کے اثرات پڑ رہے ہیں، نوجوان ملک چھوڑنے کی کوششوں میں لگے ہیں اور زمینوں کی قیمتوں میں مسلسل کمی ہوئی ہے جب کہ افغان کرنسی لگاتار گراوٹ کا شکار ہے۔‘
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے افغانستان کے لویہ جرگے نے امریکا کے ساتھ معاہدے کے مسودے کی منظوری دے دی تھی۔ اس معاملے میں لویہ جرگہ نے کچھ نئی شرائط بھی پیش کی تھیں۔
دوسری جانب پاکستانی وزارت خارجہ کے مطابق وزیراعظم نواز شریف کل ہفتے کے روز اپنے ایک روزہ دورے پر کابل پہنچیں گے۔ خیال رہے کہ افغانستان میں قیام امن کے لیے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے پاکستان کو اہم ترین ملک خیال کیا جاتا ہے۔ پاکستانی حکومت بھی اس عزم کا اظہار کر چکی ہے کہ وہ افغانستان میں قیام امن کے لیے اپنا تمام تر تعاون جاری رکھے گی۔ اس سلسلے میں کچھ عرصے قبل پاکستان میں قید ایک اعلیٰ افغان رہنما ملا برادر کو رہا کرنے کا اعلان بھی کیا تھا، جب کہ چند روز قبل ایک افغان امن وفد سے اپنے دورہ اسلام آباد میں وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات بھی کی تھی۔