کرم میں ہلاکتوں کی تعداد 133 ہو گئی، صوبائی حکومت
2 دسمبر 2024پاکستانی صوبے خیبر پختونخوا کی حکومت کے مطابق ضلع کرم میں فرقہ وارانہ جھڑپوں میں مرنے والوں کی تعداد اب بڑھ کر 133 ہو گئی ہے۔ صوبائی حکومت کی جانب سے یہ بیان آج بروز پیر ایک ایسے موقع پر جاری کیا گیا، جب اس فساد زدہ علاقے میں قبائلی عمائدین قیام امن کے لیے مقامی سنی اور شیعہ مسلم برادریوں کے درمیان جنگ بندی کو یقینی بنانے میں ناکام رہے۔
پاکستان ایک سنی اکثریتی ملک ہے، لیکن صوبے خیبر پختونخوا میں افغانستان کے ساتھ سرحد کے قریب واقع ضلع کّرم میں شیعہ آبادی کی اکثریت ہے اور یہاں کے مقامی قبائل کئی دہائیوں سے فرقہ وارانہ تصادم کا شکار ہیں۔
پشاور میں صوبائی کابینہ کے ایک اجلاس کے بعد جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا کہ 21 نومبر سے اب تک وقفے وقفے سے ہونے والی ان ہلاکت خیز جھڑپوں میں کم از کم ''133 قیمتی جانیں ضائع ہو چکی ہیں اور 177 افراد زخمی‘‘ ہوئے ہیں۔ اس بیان میں کہا گیا کہ علاقے میں جنگ بندی کو یقینی بنانے کے لیے ایک قبائلی جرگہ یا عمائدین کی کونسل تشکیل دی گئی تھی، تاہم اس سلسلے میں تاحال کوئی قابل ذکر پیش رفت نہیں ہو سکی۔
بیان میں مزید کہا گیا، ''کرم میں مسلح گروپوں کی طرف سے قائم کردہ بنکروں کو ختم کر دیا جائے گا اور بھاری ہتھیاروں کو ضبط کر لیا جائے گا۔‘‘ تازہ ترین لڑائی 21 نومبر جمعرات کے دن اس وقت شروع ہوئی تھی، جب پولیس کی حفاظت میں سفر کرنے والے شیعہ مسلمانوں کے دو الگ الگ قافلوں پر گھات لگا کر حملہ کیا گیا، جس میں 40 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
اس کے بعد سے کئی دنوں تک ہلکے اور بھاری ہتھیاروں سے جاری لڑائی نے علاقے کو مکمل طور پر بندش کا شکار کر دیا، مرنے والوں کی تعداد میں اضافے کے بعد سے اہم سڑکیں بند اور موبائل فون سروسز بھی معطل ہیں۔ پارا چنار کے علاقے میں ایک دوا خانے کے مالک انفال حسین نے کہا، ''2024ء کرم کے لیے انتہائی مشکل رہا اور جھڑپوں میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے۔‘‘
ان کا مزیدکہنا تھا، ''میں یہ فارمیسی 11 سال سے چلا رہا ہوں، لیکن حالیہ جھڑپوں کے دوران شاہراہ کو اکتوبر سے عملی طور پر بند کر دیا گیا ہے۔ اس کی وجہ سے اشیائے خور و نوش اور ادویات کی شدید قلت پیدا ہو گئی ہے۔ پارا چنار کے ہسپتالوں میں بہت سی بڑی بیماریوں کا علاج نہیں کیا جا سکتا، لیکن سڑکوں کی بندش کی وجہ سے وہ بھی بے بس ہیں۔‘‘
صوبائی دارالحکومت پشاور میں ایک سینئیر سکیورٹی عہدیدار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر حال ہی میں اے ایف پی کو بتایا تھا کہ حکام قبائلی عمائدین کی مدد سے ''جنگ بندی کے حصول کے قریب ہیں۔‘‘ اس عہدیدار کے مطابق،'' اس سے پہلے کے دو معاہدے لڑائی کو روکنے میں ناکام رہے تھے، اب صرف دو گاؤں ایسے ہیں، جہاں تاحال فائرنگ ہو رہی ہے۔‘‘
کرم ماضی میں وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں کا حصہ تھا، تاہم اسے دیگر فاٹا علاقوں کے ساتھ 2018 ء میں صوبے خیبر پختونخوا میں ضم کر دیا گیا تھا۔ پولیس یہاں فرقہ وارانہ تشدد پر قابو پانے کے لیے ہمیشہ سے جدوجہد کرتی رہی ہے۔ پاکستان میں انسانی حقوق کے غیر سرکاری ادارے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے کہا ہے کہ جولائی اور اکتوبر کے درمیان اس علاقے میں فرقہ وارانہ جھڑپوں میں 79 افراد مارے گئے تھے۔
کرم میں عام طور پر جھگڑے زمین کی ملکیت کے تنازعات سے شروع ہوتے ہیں اور بعد میں فرقہ وارانہ فسادات کا روپ دھار کر انسانی جانوں کے ضیاع اور امن امان میں خلل کا باعث بنتے ہیں۔
ش ر ⁄ م م (اے ایف پی)