1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کرہ ارض کو بچانے کے لیے 'ہیلتھ ایمرجنسی' کا نفاذ ناگزیر

26 اکتوبر 2023

دنیا بھر کے سائنس دانوں نے اجتماعی طور پر بدھ کے روز اقوام متحدہ، عالمی رہنماوں اور صحت کے حکام سے موسمیاتی تبدیلی اور حیاتیاتی تنوع کے نقصان کو عالمی صحت کی ہنگامی صورت حال کے طور پر حل تلاش کرنے کا مطالبہ کیا۔

https://p.dw.com/p/4Y2XD
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی اور حیاتیاتی تنوع کے سب سے زیادہ نقصانات کمزور کمیونٹیز پر پڑنے کا خدشہ ہے
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی اور حیاتیاتی تنوع کے سب سے زیادہ نقصانات کمزور کمیونٹیز پر پڑنے کا خدشہ ہےتصویر: DW

دو سو سے زائد سائنسی جرائد نے موسمیاتی تبدیلی اور ناپائید ہوتے حیاتیاتی تنوع کے حوالے سے عالمی ادارہ صحت سے خطرے کی گھنٹی بجا دینے کی اپیل کی ہے۔

صحت اور ماحولیات کے حوالے سے 200 سے زیادہ جرائد کی طرف سے شائع ہونے والی رپورٹ میں عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) پر زور دیا گیا ہے کہ وہ موسمیاتی اور قدرتی بحران کو ایک واحد بحران قرار دیں تاکہ تباہی سے بچنے کے لیے مل کر اقدامات کیے جاسکیں۔

'آب وہوا اورحیاتیاتی تنوع ایک ہی پیچیدہ مسئلے کے حصے'

ان مسائل پر اقوام متحدہ کی الگ الگ کانفرنسز میں غور و خوض کیا جائے گا۔ ان میں نومبر میں موسمیاتی تبدیلی پردبئی میں اقوام متحدہ کی کانفرنس آف پارٹیز(سی او پی) کی 28ویں کانفرنس اور سن 2024 میں ترکی میں حیاتیاتی تنوع پر سی او پی کی 16ویں کانفرنس شامل ہیں۔

دونوں ہی کانفرنس آف پارٹیز(سی او پی) سے وابستہ ریسرچ کمیونٹی بڑی حد تک الگ الگ ہیں۔ حالانکہ سن 2020 میں ہونے والے ایک مشترکہ ورک شاپ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا تھا کہ موسمیاتی تبدیلی اور حیاتیاتی تنوع کے مسائل سے نمٹنے کے لیے دونوں کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

دنیا کی نصف سے زائد جھیلیں خشک ہو رہی ہیں

انہوں نے اس وقت کہا تھا، "آب و ہوا اور حیاتیاتی تنوع کو ایک ہی پیچیدہ مسئلے کے حصوں کے طورپر غور کرنے سے ہی ایسے حل تلاش کیے جاسکتے ہیں جو کمیوں سے بڑی حد تک پاک ہوسکتے ہیں اور جن سے فائدہ مند نتائج زیادہ سے زیادہ حاصل کیے جاسکتے ہیں۔"

 ماہرین کا کہنا ہے کہ حیاتیاتی تنوع کی بحالی اور موسمیاتی تبدیلی کو ایک ہی بحران کے حصے کے طور تسلیم کرکے نمٹنا ہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے
ماہرین کا کہنا ہے کہ حیاتیاتی تنوع کی بحالی اور موسمیاتی تبدیلی کو ایک ہی بحران کے حصے کے طور تسلیم کرکے نمٹنا ہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہےتصویر: Imago/Zuma

'فطرت کے بغیر ہمارے پاس کچھ نہیں'

ایک ایسے وقت میں جب موسمیاتی تبدیلی کو، جنگلات کی کٹائی اور فطرت کو نقصان پہنچانے کے دیگر عوامل سے زیادہ بڑی وجہ قرار دی جارہی ہے، سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ فطری دنیا کے باہم تعلق کو سمجھنا نہایت ضروری ہے۔

اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹریش نے گزشتہ سال کہا تھا کہ "فطرت کے بغیر ہمارے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔"

موسمیاتی تبدیلیوں کے پاک بھارت آبی تنازعے پر اثرات

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ بحران انسانی صحت کو براہ راست اور بالواسطہ طورپر متاثر کرتے ہیں، جس سے خوراک اور پانی جیسی بنیادی ضروری اشیاء متاثر ہوتی ہیں اور انتہائی موسم اور بیماری کے خطرات بڑھتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق غربت میں اضافے کا ممکنہ براہ راست اثر بڑے پیمانے پر نقل مکانی اور تنازعات کا باعث بنے گا۔

ماحولیاتی اور سماجی عدم مساوات دونوں کو ہی حل کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی اور حیاتیاتی تنوع کے سب سے زیادہ غیر متناسب نقصانات کمزور کمیونٹیز پر پڑنے کا خدشہ ہے۔

سی او پی کے وعدے پورے نہیں ہوئے

دسمبر 2022میں حیاتیاتی تنوع سے متعلق سی او پی نے سن 2030 تک 30 فیصد عالمی اراضی، ساحلوں اور سمندروں کو محفوظ کرنے کا عہد کیا تھا۔ ترقی یافتہ ممالک نے موسمیاتی سی او پی کے سابقہ وعدوں کا اعادہ کرتے ہوئے دیگر ملکوں کے لیے سالانہ 30 ارب ڈالر دینے کا وعدہ کیا تھا۔

لیکن ان میں سے بہت سے وعدے ابھی تک پورے نہیں ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے دنیا "تباہی کی دہلیز" کی جانب بڑھ رہی ہے۔

کلائمیٹ چینج کے باعث تباہ کاریاں ’ابھی صرف آغاز ہے‘

رپورٹ میں زور دیا گیا ہے کہ حیاتیاتی تنوع کی بحالی اور موسمیاتی تبدیلی کو ایک ہی بحران کے حصے کے طور تسلیم کرکے نمٹنا ہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے۔

 ج ا  / ص ز (ڈی پی اے)