کوئٹہ ٹرین حادثہ، 15 ہلاک 100 سے زائد زخمی
17 نومبر 2015وزیر داخلہ بلوچستان میرسرفراز بگٹی کے بقول حادثے کا شکار ہونے والی مسافر ٹرین میں 200 سے زائد افراد سوار تھے ۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا ، " یہ حادثہ بولان کے علاقے اب گم ریلوے اسٹیشن کے قریب پیش آیا ہے۔ اترائی پر ٹرین کی رفتار تیز ہو گئی تھی جس کی وجہ سے موڑ کاٹتے ہوئے ٹرین کے بریک فیل ہوگئے اور انجن آٹھ بوگیوں سمیت پٹڑی سے نیچے اتر گیا۔ حادثے میں ہلاک اور زخمی ہونے والے افراد کو مچھ ، سبی اور کوئٹہ منتقل کیا گیا ہے۔"
وزیر داخلہ نے بتایا کہ حادثے میں شدید زخمی ہونے والے افراد میں متعدد افراد کی حالت تشویشناک ہے اس لئے ہلاکتوں میں مزید اضافے کا بھی خدشہ ہے۔
انہوں نے کہا ، " ٹرین حادثے کے بعد علاقے میں ہنگامی بنیادوں پر امدادی سرگرمیاں شروع کی گئیں ہیں۔ امدادی سرگرمیوں میں مقامی رضاکاروں سمیت پاک فوج اور ایف سی کی سریع الحرکت ٹیموں نے بھی حصہ لیا ۔ شدید زخمی ہونے والے افراد کو پاک فوج کے ایم ائی 17 ہیلی کاپٹروں کے ذریعے کوئٹہ منتقل کیا گیا ہے۔ بعض زخمیوں کو سبی بھی منتقل کیا گیا ہے تاکہ انہیں فوری طبی امداد فراہم کی جا سکے ۔"
بلوچستان ریلوے کے ایک سینیئر اہلکار جاوید احمد نے بتایا ہے کہ حادثے سے دوچار ہونے والی ٹرین کے وہ مسافر جنہیں معمولی زخم آئے تھے انہیں ریلیف ٹرین میں کوئٹہ منقتل کر دیا گیا ہے۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا ، " حادثے کی وجہ سے ٹرین کا انجن مکمل طور پر تباہ ہو گیا ہے ۔ یہ حادثہ کسی تخریب کاری کا نتیجہ نہیں ہے ۔ ہلاک ہونے والے افراد میں ٹرین ڈرائیور کے علاوہ اسسٹنٹ اور ریلوے پولیس کے دو اہلکار بھی شامل ہیں ۔ یہ ٹرین صبح 9 بجے کے قریب کوئٹہ سے راولپنڈی کے لئے روانہ ہوئی تھی۔ حادثے کی وجہ سے ریلوے ٹریک کو بھی نقصان پہنچا ہے جس کی مرمت کے لئے متعلقہ ٹیمیں متاثرہ علاقے کے طرف روانہ کر دی گئی ہیں ۔ "
حادثے کے ایک عینی شاہد زوار حسین نے بتایا کہ زخمی ہونے والے افراد میں متعدد کو مقامی لوگوں نے بھی اپنی مدد آپ کے تحت قریبی ہسپتال منتقل کیا ہے۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا ،" ہم قریب ہی موجود تھے جب ٹرین اچانک پٹڑی سے اتر گئی ۔ امدادی ٹیمیں کافی دیر بعد موقع پرپہنچیں اس وقت تک مسافر ٹرین کے اندر پھنسے ہوئے تھے ۔ امدادی ٹیموں کے ارکان نے بوگیاں کاٹ کر زخمیوں کو باہر نکالا ۔ "
ایک اور عینی شاہد غلام صابر نے بتایا کہ حادثے سے دوچار ہونے والی ٹرین میں خواتین اور بچوں کی ایک بڑی تعداد بھی سوار تھی۔ جائے وقوعہ پر ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا ، " یہ بہت ہولناک حادثہ تھا ہم نے کئی افراد کو ٹرین سے شدید زخمی حالت میں باہر نکالا۔ اس وقت کئی افراد موقع پر ہی دم توڑ گئے تھے۔ زخمی ہونے والے افراد چیخ چپخ کر امداد طلب کر رہے تھے ۔ دس سے زائد پرائیویٹ گا ڑیوں میں 60 کے قریب زخمیوں کو سبی منققل کیا گیا ہے۔ "
وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کے بقول جعفر ایکسپریس کو پیش آنے والے حادثے کی اعلیٰ سطحی تحقیقات کی جائیںگی ۔ نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا ، " یہ بہت افسوسناک سانحہ ہے ۔ زخمیوں کو ہر ممکن فوری طبی امداد فراہم کی جا رہی ہے ۔ یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ حادثے کی وجہ بریک ہونے کے ساتھ ساتھ کچھ اور بھی ہو سکتی ہے ۔ اس ضمن میں ایک تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے دی گئی ہے جو کہ کل کوئٹہ اور بعد میں بولان پہنچے گی ۔ تحقیقات کے بعد ہی صورتحال کا مزید جائزہ لیا جا سکتا ہے ۔"
واضح رہے کہ رواں ماہ کے آغاز میں بھی مستونگ کے قریب جعفر ایکسپریس پر ریموٹ کنٹرول بم سے حملہ کیا گیا تھا جس میں تین افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
قبل ازیں روان سال اگست کے مہینے میں بھی بولان کے علاقے میں جعفر ایکسپریس پر شدت پسندوں نے راکٹوں سے حملہ کیا تھا جس سے ٹرین کا انجن مکمل طور پر تباہ ہوگیا تھا۔ اس واقعے میں بھی متعدد افراد ہلاک اور زخمی ہوئے تھے ۔