کھیلوں پر پابندی پر افغان خواتین کا احتجاج
دیگر شعبوں کی طرح کھیلوں میں بھی افغان خواتین پر پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں۔ افغان طالبان کی سختی کے باوجود کچھ خواتین ان پابندیوں کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ ایسی ہی کچھ خواتین نے بطور احتجاج یہ تصاویر بنوائیں۔
خواتین کو الگ کرنے کی کوشش
اگست سن دو ہزار اکیس میں طالبان نے افغانستان پر قبضہ کر لیا تھا۔ اسلامی قوانین کی آڑ میں طالبان نے خواتین پر متعدد طرح کی سخت پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ اب خواتین کھیلوں میں بھی حصہ نہیں لے سکتی ہیں۔ تاہم افغان خواتین طالبان کے خلاف آواز اٹھا رہی ہیں۔ یہ تصویر افغان خواتین کی سابق قومی فٹ بال ٹیم کی ہے، جنہیوں نے احتجاج کے طور پر یہ لباس پہن رکھا ہے، سب سے آگے ٹیم کی کوچ ہیں۔
’جو کھیلوں سے بھی ڈر گئے‘
یہ نوجوان افغان لڑکی اسکیٹنگ کی شوقین ہے۔ یہ بھی افغان طالبان کی پابندیوں کے خلاف سراپا احتجاج ہے۔ افغانستان میں خواتین اب نہ تو کسی سپورٹس کلب جا سکتی ہیں اور نہ ہی پارک۔ اگر کوئی ایسا کرے تو اسے دھمکیاں ملتی ہیں اور کوئی نہیں جانتا کہ ان ناجائز و غیرقانونی پابندیوں کی خلاف ورزی پر ان خواتین کے ساتھ کیا سلوک برتا جائے۔
افغان باکسنگ چیمپئن
بیس سالہ نورا بھی برقع پہن کر طالبان کی پابندیوں کے خلاف احتجاج میں شریک ہوئی۔ نورا کو وہ دن اب بھی اچھی طرح یاد ہے، جب طالبان نے اگست سن 2021 میں کابل پر دھاوا بولا تھا۔ تب وہ کابل سپورٹس کلب میں میں ایک ایونٹ میں شریک تھی۔ جیسے ہی لوگوں کو علم ہوا کہ طالبان نے کابل پر حملہ کر دیا ہے تو تمام خواتین وہاں سے فرار ہونے پر مجبور ہو گئیں۔ یہ نورا کا آخری ٹورنامنٹ تھا۔
کابل چھوڑنے پر مجبور
باکسنگ چیمپئن نورا کابل کے ایک پسماندہ علاقے میں پلی بڑھیں۔ انہیں ہمیشہ سے ہی مختلف چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن جب طالبان نے اس بیس سالہ لڑکی اور اس کے گھر والوں کو دھمکانا بند نہ کیا تو وہ سب کابل سے فرار ہونے پر مجبور ہو گئے۔ نورا کا کہنا ہے کہ جب سے طالبان کی واپسی ہوئی ہے، وہ خود کو مردہ محسوس کر رہی ہیں۔ تاہم وہ نہیں چاہتیں کہ یہ کیفیت ان کی موت تک برقرار رہے۔
خاموش کرانے کی سوچی سمجھی کوشش
اس افغان خاتون سائیکلسٹ کو بھی شدید دباؤ کا سامنا ہے۔ طالبان تمام خواتین کو خاموش کرا دینا چاہتے ہیں تاکہ ان کے خلاف کوئی آواز بلند کرنے والا نہ رہے۔ خواتین اور بچیوں کو تعلیمی اداروں میں جانے سے بھی روک دیا گیا ہے۔ طالبان ایک ایسی نئی نسل تیار کرنا چاہتی ہے، جو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری ہو۔
باسکٹ بال بھی ختم
افغان خواتین باسکٹ بال کو بھی بہت پسند کرتی ہیں۔ تاہم افغان طالبان اس حق میں نہیں کہ خواتین اس کھیل میں حصہ لیں۔ افغان نیشنل اولمپک کمیٹی کے ترجمان نے حال ہی کہا تھا کہ وہ خواتین کو کھیلوں کی اجازت دینے کے بارے میں غور کر رہے ہیں تاہم اس طرح کے بیان پہلے بھی سامنے آ چکے ہیں۔ تاہم کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھائے گئے ہیں۔