1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا میرا نام میرے ’انجام‘ کی علامت ہے؟

28 جون 2020

نئی کلاس میں داخلے پر اساتذہ سے تعارف کا مرحلہ آیا، پہلے نام پوچھا گیا اور پھر ساتھ ہی نہایت احترام سے پوچھا گیا کہ آپ کے والد کا نام کیا ہے؟ دوسرا ٹیچر آیا اور وہی سوال پوچھا گیا کہ تمہارے باپ کا نام کیا ہے؟

https://p.dw.com/p/3eQcC
DW-Urdu Blogerin Nida Jaffri
تصویر: Privat

سوال ایک سا تھا پر اثر مختلف، ہم روزمرہ زندگی میں اپنے اردگرد موجود لوگوں کو کیسے پکارتے ہیں یا کن ناموں سے پکارتے ہیں یہ ہمارے ظرف پہ منحصر ہے اور اس کا سننے والے پر کیا اثر ہوتا ہے اس کا کبھی ہم احساس تک نہیں کرتے۔
 اب آئیے! ہم کیسے خدا کے تخلیق کردہ چہروں اور جسموں پر ازراہ تفنن آوازیں کستے  ہیں، رنگ گہرا ہے تو کالو، قد چھوٹا ہے تو گِھٹی یا ٹِڈی، جسم بھاری ہے تو موٹاپے پر پھبتی کس دینا۔کہنے کو مذاق ہے پر باڈی شیمنگ کر کے ہم دوسرے انسان کی تحقیر کر جاتے ہیں۔ 
شائد ہمیں اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ اس طرح کرتے ہوئے ہم لوگوں کے نہ صرف جذبات مجروح کر رہے ہوتے ہیں بلکہ ان کو نفیساتی مسائل کا شکار بھی بنا سکتے ہیں۔ یہ معاملہ دراصل ہے حساسیت کا، جو ہماری تربیت میں ہی نہیں ہے۔ اس کی کچھ اور مثالیں بھی ہیں، آئیے ان پر بھی نظر ڈالتے ہیں۔
یہی تحقیر کچھ درجات مزید بڑھ جاتی ہے جب ہمارا سامنا کسی اقلیتی باشندے سے ہو۔ وہاں تحقیر کے ساتھ ساتھ نفرت کا عنصر بھی نمایاں ہو جاتا ہے۔ کرسچین ہے تو آرام سے چوڑا، چمار، بھنگی ، گٹر صاف کرنے والا  کہہ دو۔ چاہے وہ ہم سے لاکھ درجے بہتر حلیے میں ہی کیوں نہ ہو۔ سندھ میں ہندو خواتین کو ’’ڈیڈھ‘‘ کہہ کر پکارا جاتا ہے، جس کا مطلب ’کمتر یا نیچ‘  ہے۔ کوئی سکھ مل جائے تو غیر اخلاقی جگتیں اور لطائف اور احمدی ہو تو کھلا قتل کا فتویٰ ۔

پی ٹی آئی ہمارا رومانس تھا، ختم ہوا
 بات یہاں بھی نہیں رکتی ایک مذہب کے ماننے والے مختلف مسلک کے لوگ بھی ایک دوسرے کو مسلمان سمجھنے سے قطعی انکاری ہیں ۔ اہل تشیع سے تعلق ہے تو اسکول اور کالج میں کہیں نہ کہیں آپ کو کفر یا رافضی کا فتویٰ سننے کو ملا ہو گا۔ اگر کسی حساس علاقے میں رہتے ہیں تو گھر کے باہر شیعہ کافر کی وال چاکنگ بھی دیکھی ہو گی۔ اگر کوئٹہ کے ہزارہ ٹاؤن کے آس پاس ہیں تو اپنے چہرے کے منفرد نقوش کی وجہ سے ٹارگٹ بھی ہوتے رہے ہوں گے۔ 
ہیٹ سپیچ یا اشتعال انگیزی کا زبانی اظہار ہمارے معاشرے میں تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے معاشرے میں عدم برداشت اور تعصب خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے۔ جب ہم اپنی مرضی سے اپنی عقلیں ذاکروں اور ایسے مولویوں کے پاس گروی رکھیں گے، جن کی دکانیں ہی نفرت کے کاروبار پہ چلتی  ہیں تو ہمارے کان جو زہر سنیں گے، زبان سے ویسے ہی موت کے فرمان ہی جاری کریں گے۔
 مشرف دور میں جب متحدہ مجلس عمل بنائی گئی تو ضلع مردان میں شجاع الملک جمعیت علمائے اسلام (ف) کی طرف سے نمائندہ قرار پائے۔  وہ اپنے انتخابی نشان ’کتاب‘ کے ساتھ انتخاب میں کامیاب ہوئے۔ پریس کانفرنس میں کسی دل جلے نے سوال کیا کہ آپ نے عوام کو یہ کہہ کر جذباتی بلیک میل کیا ہے کہ یہ کتاب ’اصل میں قرآن‘ ہے اس کو ووٹ نہیں دو گے تو ’کافر  ہو جاو‘ گے۔ ساتھ ہی مولانا کو طعنہ مارتے ہو کہا کہ آپ کو تو لوٹے کا نشان ملنا چاہیے تھا۔ مولانا نے پہلی بات کا جواب گول کرتے ہوئے دوسری بات کا جواب دیا کہ اگر لوٹے کا نشان بھی ملتا تو ہم عوام کو کہتے کہ یہ وضو کرنے والا لوٹا ہے اور عوام اسی عقیدت میں ہمیں منتخب کر لیتے۔

پنجاب کب جاگے گا؟
 ان علاقوں میں یہ بات ازراہ مذاق مشہور ہوئی پر حقیقتاﹰ یہ المیہ ہے۔ منبر پر کھڑا مذہبی رہنما اپنی جوش خطابت میں کچھ بھی بول رہا ہو، کسی مائی کے لعل میں اتنا جگرا نہیں ہوتا کہ جا کے پوچھے کہ بھائی یہ کونسی روایات ہیں، کہاں لکھا ہے؟
پرائیویٹ سکول میں عام سا استاد بھی بھرتی ہوتے وقت اپنے تمام کاغذات و کوائف جمع کراتا ہے۔ پچھلی نوکری والوں سے تصدیق کی جاتی ہے کہ ان صاحب یا صاحبہ کا چال چلن کیسا تھا؟ پر جب دینی خطوط پر ذہن سازی کرنے والے نمائندوں کی بات ہو تو ان کی اہلیت یا کسی بھی کاغذ کے بارے میں سوال اٹھانا ہی آپ کی گمراہی کی سب سے بڑی دلیل ٹھہرتی ہے۔
پرائیویٹ سکول کی استانی سائنس میں صوتی آلودگی پر بچے کو تصویر بنانے کو کہے تو اگلے دن بچہ مسجد اور لاؤڈ سپیکر بنا کر لے آئے، ساتھ ہی والدین بھی آجائیں کہ یہ کونسی کافر استانی بچے کا ذہن خراب کر رہی ہے۔ پر بچے سے پوچھنے پر پتا چلے کہ اس کے محلے میں چار مسالک کی مساجد ہیں، جہاں ضد لگا کر لاؤڈ اسپیکر استعمال کیا جاتا ہے اور بچہ اس شور سے متنفر ہے کیونکہ وہ کسی ایک کو بھی نہیں سن پاتا۔ یہی حال ہم سب کا ہے ہر طرف فتوے اور نعرے اس شدت سے گونجتے ہیں کہ تحقیق یا تصدیق کے لیے ہماری عقلیں بھی ماوف ہو جاتی ہیں۔ 
آئین میں لاؤڈ سپیکر کے بے جا استعمال، اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت نیز تمام شہریوں کے برابری کے حقوق آرٹیکل 19, 20 اور 36 میں تفصیلاﹰ بتائے گئے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے باشندے بہت فخر سے حرمت رسول  پر جان بھی قربان ہے کا دعویٰ کرتے ہیں، کرنا بھی چاہیے لیکن کیا جن کو ہم محبوب کہتے ہیں ان کی سیرت کے حقیقی پیروکار بھی ہیں؟ جہاں فرمان ہے، جس نے ایک انسان کو بچایا اس نے پوری انسانیت کو بچایا، جہاں یہ تک حکم ہے کہ کسی کو ایسے الٹے نام سے مت پکارو، جو اسے ناگوار گزرے۔ کیا اب نام دیکھ کر کسی انسان کو عزت کے لائق قرار دیا جائے گا؟ کیا اب نام ہی ’انجام‘ کی علامت ٹھہریں گے؟