1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تعليم

کیا ڈاکٹر پرویز ہود بھائے کو بھی ’خلائی مخلوق‘ نے نکلوایا؟

شاہ زیب جیلانی
5 جولائی 2020

ممتاز دانشور اور ماہر تعلیم ڈاکٹر پرویز ہود بھائے آٹھ سال لاہور کے ایف سی کالج میں پڑھانے کے بعد یکایک کیوں سبکدوش ہو گئے؟  ڈی ڈبلیو کا ڈاکٹر ہود بھائے کے ساتھ خصوصی انٹرویو۔

https://p.dw.com/p/3ep7L
تصویر: DW/Shadi Khan Saif

پاکستان میں تعلیم، سائنس اور انسانی حقوق کے لیے سرگرم پروفیسر ڈاکٹر پرویز ہودبھائے نے لاہور کے فورمین کرسچن کالج سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ وہ آٹھ سال تک وہاں فزکس، ریاضی اور سماجیات پڑھاتے رہے۔ اس کے علاوہ وہ چار دہائیوں سے زائد عرصے سے وہ اسلام آباد کی قائداعظم یونیورسٹی سے بھی وابستہ ہیں۔

جمعہ تین جولائی کو اپنے استعفے میں ڈاکٹر پرویز ہودبھائے نے لکھا کہ انہوں نے ایف سی کالج  کی انتظامیہ کے خراب رویے سے تنگ آکر ادارہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ اس سے قبل کالج انتظامیہ نے ان کی اہلیت پر سوال اٹھائے تھے اور کہا تھا کہ وہ ایف سی کالج میں پڑھائی کے معیار پر پورا نہیں اترتے۔

ڈاکٹر پرویز ہودبھائے کے حمایتیوں کے مطابق انہیں ان کی  بے باک تنقید اور نظریات کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا ہے۔

حقیقت جاننے کے لیے ڈی ڈبلیو کے نامہ نگار شاہ زیب جیلانی نے ڈاکٹر  ہودبھائے سے بات کی، جس کا خلاصہ یہاں پیش خدمت ہے۔

آپ ایک لمبا عرصہ اس ادارے کے ساتھ رہے۔ ایسا کیا ہوا کہ یوں چھوڑنا پڑا؟

ڈاکٹر پرویز ہودبھائے: دیکھیں، ہر تعلیمی ادارے میں چھوٹی موٹی سیاست تو ہوتی ہے اور لوگ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں لگے رہتے ہیں۔ یہ غلاظت ہمارے ہر ادارے میں ہے۔ میرے خیال میں میں اسی کا شکار ہوا۔

لیکن یہ کوئی بڑی بات نہیں۔ میرے نزدیک اصل بات یہ ہے کہ پاکستان میں کورونا کے بعد ایک بہت بڑی تبدیلی آرہی ہے۔ وائرس کے بعد یونیورسٹیاں بند ہیں اور پڑھائی آن لائن ہو رہی ہے۔ میں بہت پہلے سے اس کے حق میں رہا ہوں۔ لیکن میں نے شروع میں ہی کالج انتظامیہ  سے کہا تھا کہ ہمیں تعلیم کا معیار بہتر کرنے کے لیے اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہییے۔

ہمیں یہ دیکھنا چاہییے کہ آن لائن کلاسوں کے نام پر اساتذہ پڑھا کیا رہے ہیں۔ اس کے لیے میں نے انتظامیہ کو تجویز دی تھی کہ وہ اساتذہ سے تقاضہ کریں کہ وہ ہر ہفتے اپنا تدریسی مواد یا لیکچر کے نوٹس کالج کے ڈیٹا بیس میں جمع کر دیا کریں تاکہ شفافیت ہو اور سب کو پتہ ہو کہ کون کیا پڑھا رہا ہے۔

 تجویز تو بظاہر معقول تھی۔ تو اس پر انتظامیہ نے کیا کہا؟

ڈاکٹر پرویز ہودبھائے: انہوں نے کوئی دلچسپی نہیں لی۔ پھر طلبا کی طرف سے شکایات آنا شروع ہو گئیں۔ مجھے کئی طلبا نے لکھا کہ انہیں جو مواد دیا جا رہا ہے وہ تو ان کے پلے ہی نہیں پڑ رہا۔ میں نے خود اس مواد کو دیکھا تو حیران رہ گیا کہ یہ تو خُرافات ہیں کیونکہ ایک آدھ سینئر پروفیسرز نے تو اپنے پینتیس سال پرانے ہاتھ سے لکھے نوٹس کی تصویریں لے کر طلبا کو بھیج دی تھیں۔

میں نے پھر انتظامیہ سے کہا کہ یہ تو ظلم ہے، بچوں کے ساتھ دھوکہ ہو رہا ہے۔ جب انہوں نے اسے بھی نظرانداز کیا تو پھر میں نے ڈان اخبار میں اپنے ایک کالم میں آن لائن تدریس کے ان چیلنجوں کی نشاندہی کی۔ اس کالم میں کسی شخص یا ادارے کا نام نہیں تھا لیکن اس کے بعد سے ہمارے ڈپارٹمنٹ میں کُھلبلی مچ گئی اور بلآخر مجھے ایف سی کالج سے نکالنے کا فیصلہ کیا گیا۔

Literaturfestival in Karachi Pakistan
تصویر: DW/S. Khan

 ہمارے بعض حلقوں میں تاثر ہے کہ آپ بھی ریاستی اداروں کی زد میں آگئے ہیں۔ لیکن آپ کی باتوں سے ایسا نہیں لگتا؟

ڈاکٹر پرویز ہودبھائے: اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ مجھے خلائی مخلوق نے نکلوایا ہے۔ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ  اسی کالج سے عمار علی جان جیسے نوجوان ٹیچرکو انہوں نے ہی نکلوایا۔

لیکن سچی بات یہ ہے کہ مجھے نہیں لگتا کہ میرے  معاملے میں ان کا کوئی کردار ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہر ادارے میں بڑے عہدوں پر چھوٹے لوگ آجاتے ہیں، جنہیں یہ خطرہ محسوس ہوتا ہے کہ اگر کوئی صحیح پڑھانے والا آجائے گا تو وہ خود ایکسپوز ہوجائیں گے۔ یہ کام ایسے ہی لوگوں کے ہوتے ہیں۔

 اب آپ کا اگلا لائحہ عمل کیا ہوگا؟

ڈاکٹر پرویز ہودبھائے: میں اپنی زندگی میں دو چیزوں کے لیے لڑتا رہا ہوں۔ ایک یہ کہ پاکستان میں اچھی سائنس پڑھائی جائے اور یہاں کا تعلیمی نظام بہتر ہو تاکہ پاکستان دوسرے ملکوں کے شانہ بشانہ چلنے کو قابل ہو سکے۔

دوسرا، میں پاکستان میں کمزور طبقات کے لیے آواز اٹھاتا رہا ہوں کیونکہ میں اس بات پر قائل ہوں کہ جب تک پاکستان کے شہریوں کو برابری کے حقوق نہیں ملیں گے، ہم ایک خوشحال ملک نہیں بن سکتے۔ ہمیں مذہبی، علاقائی اور نسلی تعصب سے نکلنا ہوگا کیونکہ یہ ملک کو اندر سے کھوکھلا کر رہے ہیں۔

میں ان دو چیزوں کے لیے لڑتا رہوں گا۔ پھر چاہے کامیابی ہو نہ ہو، میں اسی پر لگا رہوں گا۔