کیمرون حکومت یورپی تارکین وطن کے خلاف ضابطوں کی کوشش میں
19 دسمبر 2013ایسے تارکین وطن بڑی تعداد میں برطانیہ کا رخ کر رہے ہیں اور لندن حکومت کو خدشہ ہے کہ اگلے سال یکم جنوری سے خاص طور پر مشرقی یورپی ملکوں رومانیہ اور بلغاریہ سے تارکین وطن کی برطانیہ آمد میں اور اضافہ ہو جائے گا۔
کیمرون کو سن 2015 میں ہونے والے اگلے عام الیکشن سے پہلے اس بارے میں عوامی دباؤ کا سامنا ہے کہ وہ اس مسئلے کا کوئی حل نکالیں۔ اس لیے کہ برطانوی عوام نہیں چاہتے کہ سن 2014 کے آغاز سے ملکی لیبر مارکیٹ کو مشرقی یورپی ملکوں سے آنے والے کارکنوں کے لیے مزید کھول دیا جائے۔ مشرقی یورپی ملکوں سے آنے والے تارکین وطن کے سلسلے میں صرف برطانیہ کو ہی مسائل کا سامنا نہیں ہے۔ جرمنی سمیت دوسرے یورپی ممالک بھی ایسی صورت حال سے دوچار ہیں۔
یورپی یونین کے کئی سیاستدانوں کے لیے روما خانہ بدوشوں کے حالات مثال کی طرح ہیں اور ان سیاستدانوں کے خدشات کو حقیقت کا روپ دے رہے ہیں۔ ماضی میں بھی ان سیاستدانوں کو خدشہ تھا کہ جب یورپی یونین کی روزگار کی منڈی کو مشرقی یورپی ملکوں سے آنے والے کارکنوں کے لیے کھولا گیا تو تارکین وطن کی بڑی تعداد ان ملکوں کا رخ کرے گی، جو امیر ہیں اور اِس وجہ سے یہ اِن ملکوں کے سماجی نظام پراضافی بوجھ کی طرح ہوں گے۔
اب صورت حال یہ ہے کہ بعض ممالک بلغاریہ اور رومانیہ جیسے ملکوں سے آنے والے ماہر تارکین وطن کو قبول کرنے پر تیار ہیں۔ ان ملکوں میں جرمنی بھی شامل ہے جہاں ہسپتالوں میں دیکھ بھال کرنے والے عملے کی کمی ہے۔ لیکن جرمنی بھی ایسے مشرقی یورپی باشندوں کو قبول کرنے پر تیار نہیں۔ کئی یورپی یونین کی رکن ریاستوں کے شہری اس لیے جرمنی، برطانیہ یا فرانس جیسے ملکوں کا رخ کرنا چاہتے ہیں کہ اپنی غربت سے چھٹکارا پاتے ہوئے اپنے حالات زندگی بہتر بنا سکیں۔
اسی لیے اب کئی یورپی ملک اس مسئلے کا حل نکالنے کی کوشش میں ہیں۔ یورپی سیاستدانوں کی کوشش ہے کہ ایسا کوئی بہتر اور دیرپا حل یورپی سطح پر ہی نکالا جانا چاہیے۔