1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کینسر، ذیابیطس اور پارکنسنز کا علاج جلد ہی، کلینیکل ٹرائل

30 دسمبر 2024

اسٹیم سیلز کے ذریعے علاج اب سائنسی لیبارٹریوں سے نکل کر کلینیکل ٹرائلز کے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے اور امید ہے کہ جلد ہی کینسر، ذیابیطس اور پارکنسنز جیسی بیماریوں کے خلاف یہ طریقہ استعمال ہونے لگے گا۔

https://p.dw.com/p/4oh4s
انسانی ایمبریو کا تھری ڈی ماڈل جہاں نیلے سیل اسٹیم سیلز کی صورت میں دکھائی دے رہے ہیں۔
اسٹیم سیل طریقہ علاج اب متعدد طبی شعبوں میں استعمال کیا جا رہا ہے۔تصویر: Weizmann Institute/abaca/picture alliance

اب تک سو سے زائد کلینیکل ٹرائلز میں اسٹیم سیلز کو ریجنریٹیو میڈیسن کے لیے آزمایا گیا ہے اور اس کے حوصلہ افزا نتائج سامنے آئے ہیں۔ محققین کے مطابق یہ ایک سنگ میل ہے، ایک ایسے میدان میں، جو اخلاقی اور سیاسی تنازعات کا شکار رہا ہے۔
اینڈریو کیسی نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ ٹیلی کمیونیکیشن ریسرچ ڈیپارٹمنٹ میں گزارا لیکن سن 2010 میں پارکنسن کیبیماری میں مبتلا ہو جانے کے بعد وہ قبل از وقت ریٹائرمنٹ پر مجبور ہو گئے۔ اپنی بیماری کے بارے میں تجسس رکھتے ہوئے، جسے وہ ''انجینیئرنگ کا نقص‘‘ قرار دیتے ہیں، انہوں نے اپنے آپ کو رضاکارانہ طور پر کلینیکل ٹرائل کے لیے پیش کیا۔

ان کا کہنا ہے، ''میرے پاس جو وقت تھا۔ میرے پاس یہی سب سے قیمتی شے تھی اور اسے میں اس بیماری کو سمجھنے اور اس کا بہتر علاج تلاش کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہتا تھا۔‘‘

اسٹیم سیل علاج کا ایک تھری ڈی ماڈل
انسانوں اور جانوروں کے نیلے اسٹیم سیلز کا ایک تھری ڈی عکستصویر: Rost9/IMAGO

دو ہزار چوبیس میں انہیں ایک ٹرائل میں شامل کیا گیا۔ رواں برس اکتوبر میں سویڈن کے شہر لُنڈ میں سرجنوں نے انسان کے ایمبریونک اسٹیم سیلز سے نکالی گئی اعصابی ڈوریاں ان کے دماغ میں داخل کیں۔ امید یہ ہے کہ یہ اسٹیم سیلز اینڈریو کیسی کے نقصان زدہ ٹشوز کو تبدیل کر دیں گے۔

یہ مطالعہ 100 سے زائد کلینیکل ٹرائلز میں سے ایک ہے جو اسٹیم سیلز کی ممکنہ صلاحیت کو آزمانے کے لیے کیا گیا تاکہ جسمانی طور پر مفلوج یا زندگی کے لیے خطرات کا باعث بیماریوں جیسے کینسر، ذیابیطس، مرگی، ہارٹ فیل اور آنکھوں کی بیماریوں کاعلاج کیا جا سکے۔

گو کہ فی الحال یہ تمام ٹرائلز چھوٹے ہیں اور زیادہ تر حفاظتی پہلوؤں پر مرکوز ہیں، مگر ابھی کچھ چیلنجز باقی ہیں، بشمول یہ کہ کون سے سیلز کس مقصد کے لیے سب سے زیادہ موزوں ہوں گے۔ پھر ساتھ ہی یہ سمجھنے کی کوشش بھی کہ سیلز کے ردعمل کو روکنے کے لیے امیونو سپریسنٹ دواؤں کی ضرورت کو انفیکشن کی شرح میں اضافے کے بغیر کیسے بائی پاس کیا جا سکتا ہے۔

پھر بھی، کلینیکل مطالعات کی یہ تیز رفتاری اسٹیم سیلز تھیراپیز کے لیے ایک سنگ میل ثابت ہو رہی ہے۔ دہائیوں کی تحقیق، جو کبھی اسٹیم سیلز کے ذریعے علاج سے جڑے اخلاقی سوالات کا باعث رہی، تو کبھی سیاسی سوالات کا، مگر اب اسے بافتیں پیدا کرنے یا تبدیل کرنے جیسے معاملات میں بڑے پیمانے پر استعمال کرنے کا راستہ اپنایا جا رہا ہے۔

جسم ہی جب میدان جنگ بن جائے تو؟

واضح رہے کہ کچھ عرصہ قبل محققین نے دعویٰ کیا تھا کہ ذیابیطس ٹائپ ون اور ٹائپ ٹو کے مریضوں پر اسٹیم سیلز کے طریقہ علاج کے کامیاب نتائج دیکھے گئے ہیں۔ کینسر کے خلاف پہلے ہی اسٹیم سیلز سے مدد لی جا رہی ہے۔

ایک امریکی لیبارٹری کے اسٹیم سیلز کے شعبے کے ماہر مارٹن پیرا کے مطابق، ''اس شعبے میں ترقی کی رفتار حیرت انگیز ہے، جہاں صرف چھبیس برس قبل انسانوں نے پہلی بار اسٹیم سیلز کو فلاسک میں کلچر کرنا سیکھا تھا۔‘‘

محققین امید کرتے ہیں کہ کچھ اسٹیم سیلز تھیراپیز جلد ہی کلینکس میں آ جائیں گی جب کہ کچھ آئندہ پانچ سے دس برسوں میں عام طب کا حصہ بن چکی ہوں گی۔

عاطف توقیر (نیچر)