1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کینیا میں الشباب کا حملہ، اکیس کے قریب افراد ہلاک

شامل شمس6 جولائی 2014

کینیا میں فلاحی تنظیم ریڈ کراس کے مطابق اس افریقی ملک میں رات گئے مسلح افراد کے حملے میں کم از کم اکیس افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ ہلاک ہونے والوں میں ایک غیر ملکی سیاح بھی شامل ہے۔

https://p.dw.com/p/1CWe4
تصویر: picture alliance/AP Photo

اتوار کے روز کیے جانے والے ان حملوں کی ذمہ داری دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے منسلک الشباب نے قبول کر لی ہے۔ گزشتہ ماہ اس تنظیم نے چھیاسٹھ افراد کو ہلاک کرنے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

حملہ کینیا کے ساحلی علاقے ہنڈی کی دو کاؤنٹیز لامو اور گامبا میں کیا گیا۔

لامو کے کمشنر کا کہنا ہے کہ پندرہ مسلح افراد نے مالامندی دیہات پر دھاوا بول دیا اور وہاں کے رہنے والوں پر گولیاں چلانا شروع کر دیں۔ مسلح افراد نے گامبا کے پولیس اسٹیشن پر بھی حملہ کیا۔

پولیس کے مطابق ہنڈی میں تیرہ جب کہ گامبا میں نو افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ ہلاکتوں کی درست تعداد کا تعین کرنا مشکل ہے۔ بعض خبر رساں ادارے ہلاکتوں کی تعداد انتیس بتا رہے ہیں۔

مقامی حکام کے مطابق گامبا میں ہلاک ہونے والے نو میں سے پانچ افراد غیر مسلم تھے۔

کینیا نے سن دو ہزار گیارہ میں اپنی افواج صومالی الشباب کے قلع قمع کے لیے تعنیات کی تھیں۔ تب سے کینیا کو الشباب کے حملوں کا سامنا ہے۔

روسی سیاح کا قتل

دریں اثناء کینیا کے ساحلی علاقے مومباسا میں ایک روسی سیاح کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا ہے۔ اس بات کی تصدیق پولیس نے کی ہے۔

کینیا کی پولیس کے ڈپٹی چیف کے مطابق یہ کوئی دہشت گردی کا واقعہ نہیں لگتا۔ پولیس اسے ٹھگوں کی ایک عام واردات کے طور پر دیکھ رہی ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ یہ افسوس کی بات ہے کہ روسی خاتون زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسیں۔

نائب انسپیکٹر جنرل کا کہنا ہے، ’’ہم ایک عام واردات کے طور پر اس کی تفتیش کر رہے ہیں۔ روسی خاتون کو گولی اس وقت لگی جب کچھ ٹھگ ان کا کیمرا چھیننے کی کوشش کر رہے تھے۔ ان افراد کی تلاش جاری ہے۔‘‘

مومباسا میں بھی الشباب شدت پسند سرگرم ہیں، اور وہ اس علاقے میں بھی اپنی پر تشدد کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اسی باعث جب ایک غیر ملکی سیاح کی ہلاکت کی خبر پہلی مرتبہ منظر عام پر آئی تو اسے بھی الشباب کا حملہ سمجھا گیا۔

امریکا اور یورپی یونین الشباب کی بڑھتی ہوئی طاقت اور اثر و رسوخ پر تشویش کا اظہار کر چکے ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید