’گولن امن ایوارڈ‘ کا مستقبل خطرے میں
24 اگست 2016امریکا میں مقیم ترک مذہبی اسکالر فتح اللہ گولن کے نام سے منسوب امن ایوارڈ حاصل کرنے والوں میں نوبل انعام یافتہ ڈیسمنڈ ٹُوٹُو اور گراسا میچل بھی شامل ہیں۔ گراسا میچل انسانی حقوق کی سرگرم کارکن ہونے کے علاوہ جنوبی افریقی لیڈر نیلسن منڈیلا کی بیوہ بھی ہیں۔
فتح اللہ گولن ایوارڈ بنیادی طور پر ایسی شخصیات کو دیا جاتا رہا ہے، جو امن اور تعلیم کی ترویج میں مصروف ہیں۔ رواں برس کے گولن امن ایوارڈ کا بظاہر کوئی مستقبل دکھائی نہیں دے رہا۔
جنوبی افریقی شہر جوہانسبرگ میں قائم ٹرکوائز ہارمنی انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر آیان جیتن نے کہا ہے کہ ابھی تک یہ طے نہیں ہو سکا ہے کہ گولن امن ایوارڈ کی تقریب منعقد کی جائے یا منسوخ کر دی جائے۔
ٹرکوائز ہارمنی انسٹیٹیوٹ بھی گولن تحریک سے وابستہ خیال کی جاتی ہے۔ آیان جیتن نے مزید کہا کہ جنوبی افریقی حکومت گولن کے حامیوں کے خلاف دکھائی نہیں دیتی لیکن کسی بھی شخص کو اگر یہ ایوارڈ دیا جاتا ہے، تو بین الاقوامی تناؤ کی وجہ سے پریشانی لاحق ہو سکتی ہے۔
ترکی میں رواں برس جولائی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد صدر رجب طیب ایردوان کی سیاسی جماعت بغاوت کا الزام موجود صدر کے سابق رفیق اور ساتھی فتح اللہ گولن پر ڈال رہی ہے۔ اسی تناظر میں انقرہ حکومت نے امریکا سے اُن کی حوالگی کا مطالبہ بھی کر رکھا ہے۔
ترک حکومت مختلف محکموں سے گولن کی حامیوں کو فارغ کرنے کا عمل جاری رکھے ہوئے ہے اور اِس کے ساتھ ساتھ گولن تحریک سے وابستہ یا حامی تعلیمی اداروں کو بھی بند کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔
ترک حکومت نے اب فتح اللہ گولن کو ایک دہشت گرد قرار دے دیا ہے۔ اُن کے چالیس ہزار سے زائد حامی حراست میں لیے جا چکے ہیں۔ ترکی میں گولن کی تحریک کا نام حِزمَت یا خدمت ہے۔ اس تحریک کے حوالے سے وسطی ایشیا قفقاذ ریسرچ ادارے کے ایک محقق خلیل کاراولی کا کہنا ہے کہ حِزمَت تحریک تب تک جاری رہ سکتی ہے جب تک امریکی چھتری اِسے حاصل ہے۔
بین الاقوامی سطح پر ترکی کے گولن مخالف سلسلے کے اثرات سامنے آنے لگے ہیں۔ افریقی ملک صومالیہ نے گولن تحریک کے تعلیمی اور طبی ادارے کو بند کر دیا ہے۔ وسطی ایشیائی ریاست آذربائیجان نے بھی اس تحریک سے وابستہ قرار دی جانے والی ایک یونیورسٹی کو حکومتی کنٹرول میں لے لیا ہے۔ شمالی عراق میں کرد خود مختار حکومت نے بھی گولن تحریک کے اداروں کے لیے نئے نگران مقرر کر دیے ہیں۔