1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گیلانی کا الزامات سے انکار، دفاع کا فیصلہ

13 فروری 2012

پاکستانی سپریم کورٹ نے اپنے حکم پر عملدرآمد نہ کرنے کے الزام میں ملکی وزیراعظم یوسف رضا گیلانی پر فرد جرم عائد کر دی ہے۔

https://p.dw.com/p/142UL
پاکستانی وزیراعظم یوسف رضا گیلانی
پاکستانی وزیراعظم یوسف رضا گیلانیتصویر: AP

وزیراعظم کو قومی مفاہمتی آرڈیننس (این آر او ) کالعدم قرار دیے جانے کے عدالتی فیصلے کے بعد صدر زرداری کے خلاف سوئس عدالتوں میں مقدمات دوبارہ کھولنے کے لیے خط نہ لکھنے پر توہین عدالت کی کارروائی کا سامنا ہے۔

پیر کے روز سپریم کورٹ کے سات رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس ناصر الملک نے وزیراعظم کی عدالت میں موجودگی کے دوران فرد جرم پڑھ کر سنائی۔ اس فرد جرم کے مطابق وزیراعظم نے سوئس عدالتوں کو خط لکھنے کے عدالتی حکم پر جان بوجھ کر عمل نہیں کیا۔

وزیراعظم نے اس الزام کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے اپنے دفاع کا فیصلہ کیا ہے۔

عدالت نے وزیراعظم کے خلاف اٹارنی جنرل کو وکیل استغاثہ مقرر کرتے ہوئے حکم دیا ہے کہ وہ 16 فروری تک مقدمے سے متعلق دستاویزات جمع کرائیں ۔ وزیراعظم کے وکیل اعتزاز  احسن کو  27 فروری کو اپنے مؤکل کے دفاع میں شہادتیں اور دستاویزات پیش کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اعتزاز احسن کی جانب سے پیش کیے جانے والے گواہان کے بیانات 28 فروری کو قلمبند ہونگے۔

وزیراعظم کے وکیل اعتزاز احسن کو 27 فروری کو اپنے مؤکل کے دفاع میں شہادتیں اور دستاویزات پیش کرنے کی ہدایت کی گئی ہے
وزیراعظم کے وکیل اعتزاز احسن کو 27 فروری کو اپنے مؤکل کے دفاع میں شہادتیں اور دستاویزات پیش کرنے کی ہدایت کی گئی ہےتصویر: AP

فرد جرم عائد کیے جانے کے بعد پیپلز پارٹی کے حامی چند وکلاء نے سپریم کورٹ کے احاطہ میں وزیراعظم کے حق میں نعرے بازی کی۔

وزیراطلاعات فردوس عاشق اعوان نے اس فیصلے کے ردعمل میں کہا: ’’پیپلز پارٹی تاریخ لکھتی آ رہی ہے اور اب بھی یہ ایک نئی تاریخ لکھنے جا رہی ہے۔ ہم قانون کی حکمرانی کو یقینی بنائیں گے اور آئین اور قانون کی طے کردہ حدود میں رہ کر اپنا لائحہ عمل طے کرینگے۔‘‘

وزیراعظم گیلانی پہلے وزیراعظم ہیں جن پر توہین عدالت کے مقدمے میں فرد جرم عائد کی گئی ہے۔

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ فرد جرم عائد کیے جانے کے بعد وزیراعظم ملزم بن گئے ہیں اور اگر انہیں سزا ہو گئی تو جیل جانے کے علاوہ انہیں نا اہلی کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔ معروف وکیل طارق محمود نے  توہین عدالت میں آئندہ کی عدالتی کارروائی کے بارے میں کہا:  ’’بنیادی طور پر اس میں ریکارڈ ہی پیش ہو گا مثال کے طور پر  این آر او پر عدالتی فیصلہ سامنے آئے گا۔ نظرثانی  اور وقتاً فوقتاً  عدالت جو احکامات اور ہدایات دیتی رہی ہے وہ سامنے لائے جائیں گے اور دفاع میں بھی  اس طرح کی دستاویزات پیش کی جائیں گی اور شاید لوگ بھی پیش ہوں گے انہوں نے جو سمجھا اس پر عمل کرتے ہوئے  ایڈوائس دی ہے۔‘‘

سپریم کورٹ کےسات رکنی بینچ نے دو فروری کو وزیراعظم پر فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس فیصلے کے خلاف آٹھ فروری کو انٹراکورٹ اپیل دائر کی گئی، جسے چیف جسٹس کی سربراہی میں آٹھ رکنی بینچ نے لگاتار دو روز کی سماعت کے بعد 10 فروری کو مسترد کر دیا تھا۔

وزیراعظم کی سپریم کورٹ میں آمد کے موقع پر سخت ترین حفاظتی انتظامات کیے گئے تھے
وزیراعظم کی سپریم کورٹ میں آمد کے موقع پر سخت ترین حفاظتی انتظامات کیے گئے تھےتصویر: Reuters

قانونی ماہرین کے مطابق وزیراعظم کی نا اہلی کی صورت میں آئندہ منتخب ہونے والے ان کے پیشرو  پر بھی خط لکھنے کی پابندی ہو گی۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ عدالت اٹارنی جنرل کو بھی خط لکھنے کے لیے کہہ سکتی ہے تاہم اس کی اہمیت نہیں  ہوتی۔ اس بارے میں ڈاکٹر عبدالباسط نے بتایا: ’’اگر اٹارنی جنرل خط بھی لکھ دیں تو بیرونی ممالک میں عدالتی حکم کا کوئی اثر نہیں ہو گا کیونکہ اٹارنی جنرل حکومت نہیں ہیں اور اس نوعیت کی کارروائی صرف حکومت کر سکتی ہے۔‘‘

وزیراعظم کی سپریم کورٹ میں آمد کے موقع پر سخت ترین حفاظتی انتظامات کیے گئے تھے۔ عام شہریوں کو ان انتظامات کے سبب شدید مشکلات  کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ اسی سبب سپریم کورٹ نے وزیراعظم کو عدالت میں حاضری سے استثنیٰ دیا ہے۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ بیان ریکارڈ کرانے کے لیے اور فیصلہ سنائے جانے کے وقت وزیراعظم کو پھر عدالت آنا پڑے گا۔

رپورٹ: شکور رحیم ، اسلام آباد

ادارت: افسر اعوان