ہلیری کلنٹن تاریخی دورے پر میانمار پہنچ گئیں
30 نومبر 2011میانمار جنوب مشرقی ایشیا کی ایک ایسی ریاست ہے، جہاں کی سیاست پر فوج کو غلبہ حاصل ہے۔ لیکن اب اس ملک میں حکومت نے فوج کی مرضی سے کئی اصلاحات متعارف کرائی ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ اپنے اس دورے کے دوران اس ملک میں تبدیلی کی اسی تحریک کی حوصلہ افزائی کرنا چاہتی ہیں۔
اس ملک میں فوجی حکمرانوں نے ریاستی دارالحکومت سن 2005ء میں اچانک Naypyidaw منتقل کر دیا تھا۔ آج بدھ کو ہلیری کلنٹن اسی شہر کے ہوائی اڈے پر اتریں۔ ان کا دورہ امریکہ کی ان کوششوں کا امتحان ہے جن کے تحت واشنگٹن اس ملک کے ساتھ اپنے اسٹریٹیجک رابطے قائم کرنا چاہتا ہے۔ ماضی میں اس ملک پر بین الاقوامی سطح پر شدید تنقید کی جاتی تھی اور وہ عشروں تک عالمی برادری اور خطے کی دیگر ریاستوں سے کافی حد تک الگ تھلگ ہی رہا ہے۔
میانمار نے جو ماضی میں برما کہلاتا تھا، گزشتہ برس اور اس سال بھی بین الاقوامی برادری کو اپنے کئی اچانک اقدامات کے ساتھ حیران کر دیا تھا۔ یہ اقدامات ملک میں سیاسی تبدیلیوں کی علامت ثابت ہوئے۔ انہی اصلاحات پسندانہ اقدامات کے تحت پچھلے سال میانمار کی حکومت نے نوبل امن انعام یافتہ اپوزیشن رہنما آنگ سان سوچی کو بھی رہا کر دیا تھا۔
میانمار پہنچنے سے پہلے ہلیری کلنٹن نے کچھ دیر کے لیے جنوبی کوریا میں بھی قیام کیا، جہاں انہوں نے ڈونر ملکوں کی ایک عالمی کانفرنس میں شرکت کی۔ ہلیری کلنٹن اپنے اس دورے کے دوران میانمار کی حکومت پر اس بارے میں دباؤ ڈالنا چاہتی ہیں کہ وہ تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کرے۔ ایسے قیدیوں کی تعداد 500 اور 1600 کے درمیان بتائی جاتی ہے۔
اس کے علاوہ اپنے اس دورے کے دوران امریکی وزیر خارجہ میانمار کی قیادت کے ساتھ بات چیت میں اس بات پر بھی زور دینا چاہتی تھیں کہ اس ملک میں طویل عرصے سے جاری نسلی تنازعات بھی ختم ہونے چاہییں، جن کی وجہ سے ہزارہا افراد نقل مکانی پر مجبور ہو چکے ہیں۔
ہلیری کلنٹن کل جمعرات کو صدر Thein Sein سے ملیں گی، جو ایک سابق فوجی جرنیل ہیں اور ان دنوں ملک میں اصلاحات کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ صدر سے ملاقات کے بعد کلنٹن سب سے بڑے شہر ینگون جائیں گی، جہاں وہ نوبل انعام یافتہ خاتون سیاستدان سوچی سے ملیں گی۔
رپورٹ: عصمت جبیں
ادارت: امجد علی