ہنگری کے وزیراعظم وکٹور اوربان متنازعہ بنتے ہوئے
13 اکتوبر 2014وکٹور اوربان نے سن 1998 میں ہنگری کے وزیر اعظم کا منصب جب پہلی بار سنبھالا تھا تو اُن کی عمر 35 برس کے لگ بھگ تھی۔ دوسری مرتبہ جب وہ وزیر اعظم بنے تو اُن کی عمر 47 برس تھی۔ وہ دائیں بازو کے نظریات کے حامل سیاستدان ہیں اور سن 2002 سے لےکر سن 2012 تک یورپی پیپلز پارٹی کے نائب صدر بھی رہ چکے ہیں۔ اُن کی سیاسی جماعت فیڈیس (Fidesz) کو مسلسل دو انتخابات میں دو تہائی اکثریت حاصل ہوئی ہے، جو اُن کے ملک میں مقبول ہونے کا ثبوت خیال کیا جاتا ہے۔
فیڈیس کو سن 2010 اور پھر سن 2014 کے پارلیمانی انتخابات میں بھاری مینڈیٹ کے ساتھ کامیابی ملی تھی۔ کل اتوار یعنی بارہ اکتوبر کو ہنگری کے ملک گیر میونسپل انتخابات میں بھی فیڈیس ہی کامیاب رہی۔ بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کو سابقہ انتخابات کے مقابلے میں معمول سے زیادہ ووٹ ملے جو مجموعی طور پر فیڈیس پارٹی سے بہت ہی کم ہیں۔ انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت ژوبِک پارٹی کے کئی امیدوار سارے ہنگری میں کامیاب ہوئے ہیں۔ کل اتوار کے انتخابات کے بعد اب سن 2018 میں آئندہ الیکشن ہوں گے۔ تجزیہ کاروں کے خیال میں اوربان آسانی کے ساتھ اگلے چار سالوں کے دوران اپنی پارلیمانی قوت کے ساتھ ملک میں سماجی و اقتصادی تبدیلی کا سلسلہ جاری رکھ سکتے ہیں۔
حکومت سازی کے عمل میں اوربان نے آج کل ہنگری کی سول لبرٹیز یونین کو ٹارگٹ کیا ہوا ہے، حالانکہ سن 2007 میں اسی کے پلیٹ فارم سے انہیں ہرزہ سرائی کے الزامات سے بری کیا گیا تھا۔ مخالفین کا کہنا ہے کہ قدامت پسند رہنما کے حالیہ اقدامات بھی انہیں خاموش رکھنے کا واضح حکومتی اشارہ ہيں۔ مخالفین کو پولیس کے چھاپوں کا بھی سامنا ہے۔ اوربان کے کئی سخت ناقد اپنے ملک ہنگری کو اِس لیے چھوڑنے پر مجبور ہو گئے کیونکہ وہ حکومت کی طرف سے ڈرانے دھمکانے کے سلسلے سے نالاں ہو گئے تھے۔ اوربان پہلے اپنی سیاسی جماعت فیڈیس پر اپنا کنٹرول مضبوط کر چکے ہیں۔ اسی طرح انہوں نے میڈیا، عدالتوں اور مرکزی بینک پر بھی حکومتی تصرف بڑھا دیا ہے۔
وکٹور اوربان اپنے اقدامات کا دفاع کرتے ہیں۔ ان کے کھلے مخالفین میں وہ آزاد گروپ نمایاں ہیں جن میں خواتین کے حقوق اور ہم جنس پرست کے فعال کارکن شامل ہیں۔ رواں برس جولائی میں اوربان نے اپنی تقریر میں ایسے مخالفین کو پیشہ ور اور کرائے کے سیاسی کارکن قرار دیا تھا۔ اپنی ایک تقریر میں اوربان نے اِس خواہش کا بھی اظہار کیا تھا کہ وہ ہنگری کو غیر لبرل ملک بنانے کی تمنا رکھتے ہیں۔ انہوں نے ہنگری کو مضبوط اور توانا ملک بنانے کے لیے روس، چین، سنگاپور اور ترکی کی مثاليں اپنے عوام کے سامنے رکھی ہیں۔ اوربان کا خیال ہے کہ یہ ایسے ملک ہیں جو لبرل نہیں لیکن کامیاب اقتصادی و سماجی پالیسیوں کے حامل ہیں۔
ہنگری میں حکومتی اقتصادی اصلاحات میں کامیابی نمایاں طور پر محسوس کی جا رہی ہے۔ مبصرین کے خیال میں ہنگری کو ماڈل بنا کر کچھ اور یورپی ملک ایسی ہی پالیسی سازی کر سکتے ہیں۔ دوسری جانب یورپی لیڈران کو ہنگری، سلوواکیہ اور بلغاریہ میں روس جیسی حکومتی پالیسیاں متعارف کروانے پر تشویش ہے۔ ہنگری میں اوربان حکومت نے لبرل سوسائٹیوں پر اپنا شکنجہ کسا ہے اور اُن کو ملنے والی بیرونی امداد کو استعمال میں لانے سے روک دیا ہے۔ ہنگری کی سول لبرٹیز یونین کے ڈائریکٹر ڈینئل سزابو کا کہنا ہے کہ ہنگری کا موجودہ سیاسی ڈھانچہ کسی طور پر تنقیدی آوازوں کو برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتا اور کئی ایسی آوازوں کو خاموش کیا جا چکا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ مغربی لیڈران امکاناً اسی صورت حال کے تناظر میں اب خال خال ہی بوڈا پیسٹ جاتے ہیں۔