ہیرو شیما پر ایٹم بم گرانے والی ٹیم کا آخری رکن بھی چل بسا
30 جولائی 2014جاپانی شہر ہیروشیما پر چھ اگست 1945ء کو گرائے گئے اایٹم بم کے نتیجے میں ایک لاکھ چالیس ہزار افراد مارے گئے تھے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز نے بتایا ہے کہ تھیوڈور فان کِرک کا انتقال امریکی ریاست جارجیا میں واقع ان کے گھر میں ہوا۔ جنگی مقاصد کے لیے پہلی مرتبہ ایٹم بم گرانے والی ٹیم میں وہ نیویگیٹر کی ذمہ داریاں نبھا رہے تھے۔ اس بم کے نتیجے میں پھیلنے والی تباہی کے تناظر میں بعدازاں انہوں نے کہا تھا کہ وہ دوبارہ کبھی بھی ایٹم بم کا استعمال ہوتے نہیں دیکھنا چاہتے۔
تاہم ہیرو شیما پر گرائے گئے ایٹم بم کا دفاع کرتے ہوئے فان کِرک کا کہنا تھا کہ انہیں اس حوالے سے کوئی افسوس نہیں کیونکہ اس باعث دوسری عالمی جنگ تھمی تھی۔ ماضی میں دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا کہ اس بم نے جانیں بچائی تھیں کیونکہ دوسری صورت میں جاپان میں جاری تباہی کے نتیجے میں وہاں زیادہ ہلاکتیں ہوتیں۔
فان کِرک ’امریکی B-2 سپر فورٹرس انولا گے‘ کی اس بارہ رکنی ٹیم کا حصہ تھے، جس نے دوسری عالمی جنگ کے اختتامی مراحل میں ہیرو شیما پر’لِٹل بوائے‘ نامی ایٹم بم گرایا تھا۔ اس وقت اس شہر میں کل ساڑھے تین لاکھ باشندے سکونت پذیر تھے، جن میں سے ایک لاکھ چالیس ہزار مارے گئے تھے۔
امریکا نے نو اگست 1945ء کو ناگا ساکی پر دوسرا ایٹم بم گرایا تھا، جس کے نتیجے میں کم از کم 80 ہزار افراد مارے گئے تھے۔ اس امریکی کارروائی کے نتیجے میں پندرہ اگست 1945 کو جاپان نے شکست تسلیم کر لی تھی اور یوں دوسری عالمی جنگ اپنے اختتام کو پہنچی تھی۔
فان کِرک کے بیٹے ٹام فان کِرک نے بتایا ہے کہ ان کے مرحوم والد کی آخری رسومات امریکی ریاست پنسلوانیا میں واقع ان کے آبائی علاقے تارتھمبر لینڈ میں پانچ اگست کو ادا کی جائیں گی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کے والد کا انتقال طبعی وجوہات کی بنا پر ہوا اور وہ آخری وقت تک ایکٹیو تھے۔ ٹام کے بقول اگرچہ دنیا تھیوڈور فان کِرک کو ایک جنگی ہیرو کے طور پر جانتی ہیں لیکن وہ ایک بہترین والد بھی تھے۔
انولا گے نامی مشن کے ایک رکن مورس جوزف کے 2010ء میں انتقال کے بعد فان کِرک اس ٹیم کے ایسے واحد ممبر تھے، جو ابھی تک زندہ تھے۔