یورپی یونین برطانیہ سے جلد از جلد ’جان چھڑانے‘ کی کوشش میں
28 جون 2016یورپی یونین کی جانب سے برطانیہ کو واضح انداز میں خبردار کیا گیا ہے کہ یونین کی رکنیت چھوڑنے کے بعد برطانیہ کے ساتھ کسی طرح کا خصوصی رویہ روا نہیں رکھا جائے گا۔
بریگزٹ ہی کے تناظر میں یورپی یونین کی رکن ریاستوں کے سربراہانِ حکومت و مملکت دو روزہ کانفرنس کے لیے برسلز میں جمع ہوئے ہیں، جب کہ یہ غالباﹰ برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کی یورپی یونین کے سربراہی اجلاس میں آخری مرتبہ شرکت ہے۔
منگل کے روز بھی ڈیوڈ کیمرون نے واضح الفاظ میں کہا کہ وہ کسی بھی صورت آرٹیکل پچاس کو خود لاگو نہیں کریں گے بلکہ اس کے لیے برطانیہ کا آئندہ وزیراعظم حکمتِ عملی وضع کرے گا اور اقدامات اٹھائے گا۔ کیمرون پہلے ہی اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کر چکے ہیں۔ کیمرون کے مطابق تین ماہ بعد کنزرویٹو پارٹی کی کانگریس میں آئندہ وزیراعظم کا انتخاب عمل میں لایا جائے گا اور نیا وزیراعظم ہی لزبن معاہدے کا آرٹیکل پچاس لاگو کر کے برطانیہ کے یورپی یونین سے اخراج سے متعلق اقدامات کا آغاز کرے گا۔
ادھر بریگزٹ کے شدید اور گہرے اثرات برطانوی سیاست پر بھی دیکھے جا رہے ہیں، جہاں منگل کو اپوزیشن جماعت لیبر پارٹی کے سربراہ جیریمی کوربن نے اپنی جماعت کی جانب اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے میں ناکامی کے باوجود مستعفی ہونے سے انکار کر دیا ہے۔
یورپی یونین کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے برسلز پہنچنے پر کمیرون نے کہا کہ یورپی یونین اور برطانیہ کے درمیان پڑنے والی یہ دراڑ تمام ممکنہ حد تک ’تعمیری‘ ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ یونین سے اخراج کے باوجود یورپی یونین اور برطانیہ کو ’قریبی ترین تعلقات‘ استوار کرنا چاہیئں۔
تاہم یورپی یونین کے اہم ممالک نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ برطانیہ کے ساتھ مستقبل کے تعلقات کے حوالے سے اس وقت تک بات چیت کا آغاز نہیں ہو گا، جب تک برطانیہ لزبن معاہدے کے آرٹیکل پچاس کے تحت اپنے اخراج کے عمل کا آغاز نہیں کر دیتا۔
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے بھی برسلز سمٹ میں شرکت سے قبل منگل کے روز جرمن پارلیمان میں کہا کہ یورپی یونین سے اخراج کی بات چیت میں برطانیہ کی مرضی نہیں چلے گی۔ میرکل کے بقول برطانیہ کو یونین سے اخراج کی ’قیمت چکانا‘ ہو گی۔
برسلز پہنچنے پر بھی میرکل نے کہا، ’’یہ اہم ہے کہ ہم برطانیہ کے ساتھ مذاکرات کا آغاز صرف اس وقت کریں، جب برطانیہ آرٹیکل پچاس لاگو کرنے کا اعلان کر دے۔ اس سے قبل کوئی رسمی یا غیر رسمی بات چیت نہیں ہو گی۔‘‘
فرانسیسی صدر فرانسوا اولانڈ کا بھی کہنا ہے، ’’پوری دنیا کی نگاہیں یورپ کی جانب ہیں۔ اب برطانیہ تیز رفتاری دکھائے، تاکہ ہم بھی آگے بڑھ سکیں۔‘‘