1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپی یونین کو نئے اراکین شامل کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے

30 اگست 2023

یورپی کونسل کے صدر چارلس مشیل کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کے رکن ممالک کو اصلاحات پر عمل درآمد کرنا چاہیے تاکہ رواں دہائی کے اواخر تک بلاک میں نئے اراکین شامل ہو سکیں۔

https://p.dw.com/p/4VjfQ
یورپی کونسل کے صدر چارلس مشیل
مشیل کے مطابق یورپی یونین کے رہنما آئندہ اکتوبر میں اسپین کے شہر غرناطہ میں ہونے والی سربراہی کانفرنس میں ''نئے اراکین کو شامل کرنے کی یورپی یونین کی وسعت'' پر تبادلہ خیال کریں گےتصویر: Daniel Novakovic/Slovenian Government Press Service/AP/picture alliance

یورپی کونسل کے صدر چارلس مشیل نے پیر کے روز کہا کہ یورپی یونین کو ایک ''جرات مندانہ اقدام'' کرنا چاہیے اور سن 2030 تک نئے اراکین کو قبول کرنا چاہیے۔

یورپی یونین کی ریاستیں کس طرح ہجرت کو روکنے کی کوشش کرتی ہیں

انہوں نے یہ باتیں سلووینیائی جھیل کے کنارے واقع ریزارٹ بلیڈ میں ہونے والے بین الاقوامی اسٹریٹجک فورم میں کہیں۔ اس فورم میں مغربی بلقان کے رہنماؤں نے بھی شرکت کی۔

کیا یورپی یونین بنگلہ دیش میں منصفانہ انتخابات کرا سکتی ہے؟

یورپی کونسل کے صدر مشیل نے کہا، ''میرا خیال ہے کہ ہمیں سن 2030 تک دونوں طرف سے وسعت کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ یہ بڑے عزم و حوصلے کی بات ہے، لیکن ضروری بھی ہے۔ اس سے ہماری سنجیدگی کا بھی اظہار ہوتا ہے۔''

یورپی یونین اور تیونس میں غیر قانونی مہاجرت روکنے کا معاہدہ

ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے وقت مقرر کرنے سے بلاک کو مزید اعتماد و اعتبار حاصل ہو گا۔

کیا یورپی یونین کے رکن ممالک سیاسی پناہ کی مشترکہ پالیسی پر متفق ہو جائیں گے؟

مشیل نے کہا کہ ''اگلی توسیع سے پہلے ہماری جانب سے اصلاح نہ کرنا ایک بنیادی غلطی ہو گی۔'' انہوں نے مزید کہا کہ ''یہ تو شامل ہونے والے نئے رکن ممالک کے لیے بھی سمجھ میں آنے والی بات ہے کہ وہ ایسی یونین میں شامل ہو رہے ہیں، جو نہ صرف اچھی طرح سے کام کر رہی ہو، بلکہ کارآمد بھی ہو۔''

کیا یورپی یونین چین سے رشتوں پر نظرثانی کرنے پر غور کر رہی ہے؟

مشیل کے مطابق یورپی یونین کے رہنما آئندہ اکتوبر میں اسپین کے شہر غرناطہ میں ہونے والی سربراہی کانفرنس میں ''نئے اراکین کو شامل کرنے کی یورپی یونین کی وسعت'' پر تبادلہ خیال کریں گے۔

بین الاقوامی اسٹریٹجک فورم کا اجلاس
سلووینیائی جھیل کے کنارے واقع ریزارٹ بلیڈ میں ہونے والے بین الاقوامی اسٹریٹجک فورم میں مغربی بلقان کے رہنماؤں نے بھی شرکت کیتصویر: Government of North Macedonia

واضح رہے کہ یورپی یونین میں شامل ہونے کے لیے ضروری ہے کہ بلاک میں شامل تمام موجودہ اراکین متفقہ طور پر اس کا فیصلہ کریں۔

یورپی یونین کے دروازے پر کون کون کھٹکھٹا رہا ہے؟

فی الوقت یورپی یونین کے 27 رکن ممالک ہیں۔ چھ مغربی بلقان کی ریاستیں، البانیہ، بوسنیا، کوسوو، مونٹی نیگرو، شمالی مقدونیہ اور سربیا بلاک میں شمولیت کے عمل کے مختلف مراحل سے گز رہے ہیں۔

گزشتہ برس مالڈووا اور یوکرین کو امیدوار کا درجہ دیا گیا تھا۔ دونوں ممالک نے رواں برس کے اواخر تک برسلز کے ساتھ الحاق پر باضابطہ مذاکرات شروع کرنے کے لیے گرین لائٹ حاصل کرنے کی امید ظاہر کی۔ ادھر جارجیا اب بھی امیدوار کا درجہ حاصل کرنے کا منتظر ہے۔

مشیل نے اس موقع پر کہا کہ بلاک میں شامل ہونے کے لیے مستقبل کے رکن ممالک کو آزاد عدلیہ کو یقینی بنانے، منظم جرائم اور بدعنوانی سے لڑنے اور یورپی یونین کے رکن ممالک کے ساتھ اپنی خارجہ پالیسی کو ہم آہنگ کرنے کے لیے اصلاحات نافذ کرنا ہو گا۔

انہوں نے شامل ہونے والے تمام خواہشمندوں پر زور دیا کہ وہ یورپی یونین میں شمولیت سے قبل اپنے باہمی تنازعات کو حل کریں۔ انہوں نے کہا کہ ''آپ کو یہ یقینی بنانا ہو گا کہ ماضی کے تنازعات یورپی یونین میں درآمد نہ کیے جائیں۔''

مغربی بلقان کا رد عمل کیا رہا؟

البانیہ کے وزیر اعظم ایڈی راما نے مشیل کے اعلان کا خیر مقدم کرتے ہوئے ''آگے بڑھنے کے لیے حقیقی قدم'' کے لفظ پر زور دیا۔ انہوں نے ان خدشات کا بھی اظہار کیا کہ یوکرین کی یورپی یونین میں شامل ہونے کی کوشش کو طویل مدتی امیدواروں کی قیمت پر نہیں لگانی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ''یوکرین کو ایک ممکنہ رکن ریاست کے طور پر دیکھا جانا چاہیے، لیکن میری خواہش ہے کہ یہ مغربی بلقان کے لیے نقصان دہ ثابت نہ ہو۔''

دریں اثنا سربیا کی وزیر اعظم اینا برن بیک نے خبردار کیا کہ امیدوار کا درجہ حاصل کرنے کے بعد سے ایک دہائی تک بغیر کسی بات چیت کے انتظار کرتے رہنے سے ان کے ملک میں یورپ سے متعلق شکوک و شبہات کو ہوا دی ہے۔

ان کا کہنا تھا، ''ہم جغرافیائی طور پر، اقتصادی طور پر، ثقافتی طور پر، ہر طرح سے یورپی ہیں۔'' انہوں نے بلاک پر زور دیا کہ وہ مغربی بلقان کو ''یورپی خاندان'' میں ضم کرنے کے لیے ''حوصلہ بخش سیاسی فیصلہ کرے۔''

ص ز/ ج ا (اے ایف پی، اے پی، ڈی پی اے، روئٹرز)