یورپی یونین کی نئی قیادت کا دورہ یوکرین
1 دسمبر 2024یوکرینی دارالحکومت کییف پہنچنے پر کوسٹا کا کہنا تھا، ''ہم ایک واضح پیغام دینے آئے ہیں کہ ہم یوکرین کے ساتھ کھڑے ہیں اور ہم اپنی مکمل حمایت جاری رکھیں گے۔‘‘
یورپی یونین کی نئی قیادت یہ ظاہر کرنے کی خواہاں ہے کہ وہ روسی جارحیت کے خلاف کییف کی حمایت کرنے کے لیے پرعزم ہے، ایک ایسے وقت میں جب قریب تین برس سے جاری اس جنگ میں یوکرین شدید دباؤ کی صورتحال سے گزر رہا ہے۔
روس کا اوریشنک میزائل: یہ نیا ہتھیار کیسا ہے؟
یوکرین جنگ: روسی حملے کے ایک ہزار دن مکمل
آئندہ ماہ یعنی جنوری 2025ء میں ڈونلڈ ٹرمپ کے بطور امریکی صدر عہدہ سنبھالنے کے بعد امریکی حمایت کے مستقبل کے بارے میں سوالات اٹھ رہے ہیں اور خدشہ ہے کہ وہ کییف کو فوری امن معاہدے کے حصول کے لیے ایسی رعایتیں دینے پر مجبور کر سکتے ہیں، جو یوکرین کے لیے تکلیف دہ ہوں گے۔
دوسری طرف، کشیدگی میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے، کیونکہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے کییف میں سرکاری عمارتوں کو اپنے نئے اوریشنک میزائل سے نشانہ بنانے کی دھمکی دی ہے۔ روس نے گزشتہ ماہ یوکرین پر پہلی بار یہ میزائل داغا تھا جس کے تباہ کن اثرات دیکھے گئے۔
روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے مطابق یہ اقدام کییف کو امریکی اور برطانوی میزائلوں سے روس کے اندر حملہ کرنے کا گرین سگنل ملنے کا جواب تھا۔ ساتھ ہی انہوں نے یوکرین کو ہتھیار فراہم کرنے والے ممالک کے خلاف جوابی کارروائی کرنے کی دھمکی بھی دی۔
موسم سرما کے آغاز کے ساتھ ہی روس نے یوکرین کے بجلی کی فراہمی کے نظام اور گرڈ اسٹیشنوں پر حملے شروع کر دیے ہیں، جبکہ فرنٹ لائن پر یوکرینی افواج شدید دباؤ میں ہیں اور روسی افواج یوکرینی علاقوں میں پیشقدمی کر رہی ہیں۔
یورپی یونین کے خارجہ امور کی نئی سربراہ اور ایسٹونیا کی سابق وزیر اعظم کایا کلاس نے کہا ہے کہ یوکرین میں صورتحال بہت سنگین ہے، مگر یہ واضح ہے کہ اس کے لیے روس کو بھی بھاری قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے۔
یورپی یونین کے نئے رہنما، یورپی کمیشن کی سربراہ اُرزولا فان ڈیر لائن کے ہمراہ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی سے بات چیت کریں گے۔
زیلنسکی روس کے ساتھ جنگ بندی کے لیے آمادہ
یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی برطانوی اسکائی ٹیلی وژن کے ساتھ ایک انٹرویو میں روس کے ساتھ جنگ بندی کی خواہش کا اظہار کر چکے ہیں۔ جمعے کے روز انہوں نے کسی بھی ممکنہ امن مذاکرات سے قبل اپنا موقف واضح کیا۔
انہوں نے نیٹو پر زور دیا کہ وہ کییف کے زیر کنٹرول یوکرین کے علاقوں کو یقینی تحفظ فراہم کرے تاکہ ''جنگ کی 'ہاٹ اسٹیج‘ کو روکا جا سکے‘‘ اور اس کے بعد وہ روس کے زیر قبضہ دیگر علاقوں کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے سفارتی کوششوں کا سہارا لیں گے۔
زیلنسکی نے برطانیہ کے اسکائی نیوز سے بات کرتے ہوئے مزید کہا، ''اگر ہم جنگ بندی کی بات کرتے ہیں تو ہمیں اس بات کی ضمانت کی ضرورت ہے کہ پوٹن واپس نہیں آئیں گے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ سلامتی کی سب سے مضبوط ضمانت نیٹو کی رکنیت ہے۔
ان کا کہنا تھا، ''ہمیں یقینی طور پر یہ پر بات کرنے کی ضرورت ہے، اگر یوکرین کہیں لکیر کھینچنے کا فیصلہ کرتا ہے تو ہم امن کیسے حاصل کر سکتے ہیں تاکہ پوٹن مزید آگے نہ بڑھیں۔‘‘
نیٹو کے سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ روس کے ساتھ جنگ میں گھسیٹنے کے بارے میں محتاط ارکان کی مخالفت کے پیش نظر اتحاد کی جانب سے جلد ہی یوکرین کی رکنیت دینے کا امکان بہت کم دکھائی دیتا ہے۔
کایا کلاس کے مطابق تاہم یورپی یونین کو جنگ بندی کے نفاذ میں مدد کے لیے یورپی فوجیوں کو بھیجنے کے سوال کے حوالے سے ''کسی بھی چیز کو مسترد نہیں کرنا چاہیے۔‘‘
یوکرین کے لیے امریکی امداد اور نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ
امریکہ کے نئے منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یوکرین کے لیے واشنگٹن کی جانب سے وسیع پیمانے پر امداد جاری رکھنے کے سلسلے پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے اور یورپی یونین کے ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ مزید اقدامات کریں۔
یوکرین کی جنگ کے حوالے سے جرمنی کے کیل انسٹی ٹیوٹ کے مطابق، 2022 میں روس کے حملے کے بعد سے یورپ نے مجموعی طور پر یوکرین کی مدد پر تقریباً 125 بلین ڈالر خرچ کیے ہیں، جبکہ صرف امریکہ نے 90 بلین ڈالر سے زیادہ خرچ کیے ہیں۔
کایا کلاس کا تاہم کہنا ہے کہ یورپی یونین ٹرمپ کو قائل کرنے کی کوشش کے لیے ''لین دین کی زبان‘‘ کا استعمال کرے گی کہ کییف کی حمایت کرنا امریکہ کے مفاد میں ہے۔
انہوں نے کہا کہ یوکرین کے لیے امداد خیرات نہیں ہے، کیونکہ روس کی فتح یقینی طور پر چین، ایران اور شمالی کوریا کی حوصلہ افزائی کرے گی۔
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی نئی سربراہ نے کہا کہ اگر کییف نے ماسکو کے ساتھ بات چیت کا وقت منتخب کیا تو بلاک یوکرین کو ''مضبوط ترین‘‘ پوزیشن میں رکھنے کی کوشش جاری رکھے گا۔
تاہم انہوں نے تسلیم کیا کہ 27 ممالک پر مشتمل بلاک کے لیے یوکرین کی حمایت بڑھانے کے نئے طریقوں پر اتفاق کرنا 'مشکل‘ ہوتا جا رہا ہے۔
''یہ جنگ کافی عرصے سے جاری ہے اور اپنے لوگوں کے لیے اس کی وضاحت پیش کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔‘‘ تاہم ان کے بقول اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں۔
ا ب ا/ک م (روئٹرز)