ایدھی کا 120 فٹ بلند مجسمہ بنانے کے خواہش مند، اسحاق لہڑی
13 ستمبر 2020مجسمہ سازی کی تاریخ انتہائی قدیم ہے۔ ماہرین ِ آثارِ قدیمہ کے مطابق پتھر کے زمانے یعنی 35 ہزار سے 40 ہزار سال پہلے ہاتھی دانت سے بنے ایک مجسمے کو دنیا کا قدیم ترین مجسمہ کہا جاتا ہے۔ اسے 1939ء میں جرمنی کے ہولنشٹائن شٹاڈل کے غار سے دریافت کیا گیا تھا۔ یعنی مجسمہ سازی کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی انسانی تہذیب۔ خیال ہے کہ پہلے پہل یہ مجسمے صرف پوجا یا عبادت کے لیے استعمال کیے جاتے تھے مگر پھر رفتہ رفتہ ان کی تیاری فن کی صورت اختیار کرتی گئی۔
پاکستان میں مجسمہ سازی کو جلا بخشنے والے اہم نام منصور زبیری، عمران مشتاق اور فقیرہ فقیرو ہیں جن کے کام کو بین الاقوامی سطح پر پزیرائی حاصل ہوئی۔ بلوچستان میں اسے فن کی حیثیت سے جمال شاہ نے متعارف کروایا ۔ زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح آرٹ میں بھی بلوچستان کا بہت سا ٹیلنٹ ابھی دنیا کی نظر سے پوشیدہ ہے۔ انہی میں سے ایک نام اسحاق لہڑی بھی ہیں جن کا تعلق مستونگ سے ہے۔ بلوچستان یونیورسٹی سے فائن آرٹس کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد وہ گزشتہ 20 برس سے پی ٹی وی کوئٹہ سے بطور ِ ڈیزائنر وابستہ ہیں۔
اسحاق لہڑی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کا بچپن سبی میں گزرا جہاں کی مٹی بہت چکنی ہے، وہ اس سے مختلف چیزیں بنایا کرتے تھے: ''اکثر سبی میلے میں جب میں اونٹ، گھوڑے، ہاتھی وغیرہ کو قریب سے دیکھتا تھا تو گھر آکر مٹی سے ویسے ہی مجسمے بنانے کی کوشش کرتا تھا۔ یونیورسٹی آف بلوچستان سے میں نے فائن آرٹس کیا جس میں میرا میجر مجسمہ سا زی تھا۔ مگر 2000 میں پی ٹی وی کوئٹہ سے منسلک ہونے کے بعد میں اپنے اس شوق کو وقت نہیں دے سکا۔ اب 15 سال کے وقفے کے بعد میں نے دوبارہ کام کا آغاز کیا اور اب تک جو مجسمے میں نے بنائے ہیں وہ کوئٹہ میں مختلف مقا مات پر لگے ہوئے ہیں جبکہ کچھ مجسمے دبئی بھی منگوائے گئے ہیں۔‘‘
’ثقافت کے زندہ امین، حکومتی مالی امداد کے منتظر‘
پاکستانی نژاد امریکی فنکار کی تخلیق نیویارک کے میوزیم میں
عبدالستار ایدھی کا 120 فٹ بلند مجسمہ بنائے کی خواہش
اسحاق لہڑی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا: ''جب میں نے پی ٹی وی میں جاب شروع کی تو کئی برس تک میں اپنے اس شوق کے لیے بالکل وقت نہیں نکال سکا۔ ابھی یہی کوئی چھ سال پہلے میں نے دوبارہ کام کا آغاز کیا ہے اور اب تک متعدد چوپایوں، جن میں اونٹ اور گھوڑے کے مجسمے قابل ِ ذکر ہیں بنا چکا ہوں اور عبدالستار ایدھی، بلوچستان کی ایک قد آور شخصیت میر راشد بزنجو اور کئی دیگر شخصیات کے مجسمے بھی میں نے بنائے ہیں۔ لیکن میری شدید خواہش ہے کہ معروف سماجی کارکن عبد الستار ایدھی مرحوم کا ایک 120 فٹ کا مجسمہ بناؤں جو دنیا کا چٹھا اور پاکستان کا سب سے بڑا مجسمہ ہو گا۔ یہ میرا اس عظیم شخصیت کو خراج تحسین ہوگا کیونکہ ایدھی صاحب نے مجھے ہمیشہ بہت متاثر کیا ہے۔ جبکہ مجسمہ سازی میں میرے آئیڈیل معروف مجسمہ ساز فقیرا فقیرو ہیں جنھیں تمغۂ امتیاز سے بھی نوازا گیا ہے۔‘‘
ایک مجسمے کی تیاری میں اسحاق لہڑی کو ایک سے تین ماہ کا عرصہ لگتا ہے جس کا انحصار مجسمے کے سائز پر ہوتا ہے: ''اس کی تیاری کے مراحل مختلف ہوتے ہیں، فائبر گلاس میں مجسمہ بنانے کے لیے پہلے آرمیچر اور جالی لگا کر مٹی سے مجسمہ بنایا جاتا ہے اور پھر پلاسٹر یا ربڑ سے مولڈ نکالا جاتا ہے جس کے بعد فائبر سے اس کی کاسٹ نکالتے ہیں۔‘‘
اپنا فن آئندہ نسل کو منتقل کرنے کے لیے تربیتی ادارہ بنانے کا ارادہ
اسحق لہڑی اپنے فن کو آج کی نوجوان نسل میں منتقل کرنے کے لیے ایک باقاعدہ تربیتی ادارہ بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں مگر فی الوقت ملازمت اور مناسب جگہ دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے یہ ممکن نہیں۔ کچھ عرصے پہلے تک وہ کرائے پر جگہ لے کر وہاں مجسمے تیار کیا کرتے تھے مگر اب انھوں نے اپنے گھر کے لان میں ہی ایک چھوٹا سا چھپر ڈال کر کام کا دوبارہ آغاز کیا ہے۔
اگر بلوچستان کے اس با صلاحیت مجسمہ ساز کو مناسب وسائل اور ما لی مدد فراہم کی جائے تو کوئی شک نہیں کہ نا صرف ان کے اپنے تیار کردہ مجسمے بین الاقوامی پزیرائی حاصل کر سکتے ہیں بلکہ ان کی تربیت سے بلوچستان کا بہت سے ایسا ٹیلنٹ سامنے آ سکتا ہے جو فی الوقت مناسب تربیت کی کمی اور دیگر مسائل کے باعث دنیا کی نظر سے پوشیدہ ہے۔