پاک افغان سرحد ی علاقے: دہشت گردوں کے خلاف کارروائی پر اتفاق
26 جون 2014یہ اتفاق رائے رنگین رحیمی دادفر سپانتا کی پاکستانی ہم منصب سرتاج عزیز کے ساتھ اسلام آباد میں ہونے والی ایک ملاقات میں ہوا۔ افغان مشیر نے پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف اور فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف سے بھی ملاقاتیں کیں۔
اس اعلیٰ افغان عہدیدار نے یہ دورہ ایک ایسے وقت پر کیا ہے جب دونوں ممالک کے درمیان سرحدی انتظام کے معاملے پر تناؤ پایا جاتا ہے۔ پاکستانی حکام افغان حکومت پر زور دے رہے ہیں کہ وہ شمالی وزیرستان میں کارروائی کے دوران پاکستان سے متصل اپنی قومی سرحد کو سر بمہر رکھے جبکہ افغان حکام نے الزم لگایا تھا کہ پاکستانی فوجیوں نے سادہ کپڑوں میں افغان علاقے میں مسلح کارروائی کی ہے۔
جمعرات کے روز دفتر خارجہ کے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق ڈاکٹر سپانتا اور وزیر اعظم نواز شریف کی ملاقات میں دو طرفہ دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ قومی سلامتی کے افغان مشیر نے صدر حامد کرزئی کا ایک خط بھی پاکستانی وزیر اعظم کو پہنچایا۔
ملاقات میں افغان مشیر کے ہمراہ افغان دفتر خارجہ اور محکمہ داخلہ کے حکام کے علاوہ اسلام آباد میں افغانستان کے سفیر موسیٰ جانان زئی بھی شریک ہوئے جبکہ پاکستانی وزیر اعظم کی معاونت ان کے قومی سلامتی اور خارجہ امور کے مشیر سرتاج عزیز، معاون خصوصی طارق فاطمی اور سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری نے کی۔
دفتر خارجہ کے بیان کے مطابق افغان وفد کی ملاقاتوں اور مذاکرات کا مقصد سلامتی کے شعبے میں دوطرفہ تعاون کو مضبوط بنانا تھا۔ مذاکرات کے دوران اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ ہمسایہ ممالک مشترکہ سرحد کے دونوں طرف دہشت گردوں کے ٹھکانوں کے خلاف بلاتفریق کارروائی کریں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ دونوں ریاستوں کے درمیان سکیورٹی امور میں تعاون بڑھانے کے لیے مشترکہ ورکنگ گروپ تشکیل دینے پر بھی اتفاق کیا گیا۔
اس ورکنگ گروپ کی سربراہی نائب وزیر خارجہ اور سیکرٹری خارجہ مشترکہ طور پر کریں گے جبکہ دونوں جانب سے خارجہ امور کی وزارتوں کے عہدیدار اور متعلقہ سکیورٹی اداروں کے نمائندے بھی اس گروپ میں شامل ہوں گے۔ اس سلسلے میں متعلقہ حکام کا اجلاس تین جولائی کو اسلام آباد میں ہو گا۔
جمعرات ہی کو پاکستانی دفترخارجہ میں ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران ایک ترجمان نے کہا کہ پاکستان نے اپنے قبائلی علاقے میں فوجی آپریشن شروع کر رکھا ہےتاکہ اس علاقے سے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ دیا جائے۔ ترجمان نے کہا، ’’ہم افغانستان سے توقع کرتے ہیں کہ وہ سرحد پر اقدامات کرے تاکہ یہ دہشت گرد افغان علاقے میں پناہ گاہیں تلاش نہ کر سکیں۔ ڈاکٹر سپانتا کا دورہ بھی اس بارے میں بات چیت کو آگے بڑھانے کے لیے ہے۔‘‘
ترجمان تسنیم اسلم کا کہنا تھا کہ جب افغانستان میں پہلے اور دوسرے مرحلے کے صدارتی انتخابات ہوئے تو پاکستان نے اپنی سرحد کو محفوظ بنانے کے لیے غیر معمولی اقدامات کیے۔ افغانستان کے ساتھ سرحد پر اضافی سکیورٹی اہلکار تعینات کیے گئے تھے تاکہ دہشت گردوں کی نقل و حرکت روکی جا سکے۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ افغان حکومت، صدارتی امیدواروں اور بین الاقوامی برادری نے بھی پاکستان کی اس کاوش کا اعتراف کیا۔ ’’دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاکستانی فوجی کارروائی میں تعاون خود افغانستان کے اپنے مفاد میں ہے۔‘‘
دوسری جانب دفاعی تجزیہ کار جنرل (ر) جمشید ایاز کا کہنا ہے اگر اب بھی افغان حکام تعاون نہیں کرتے تو پاکستان کو اب خود ہی ایسا کوئی حل نکالنا پڑے گا کہ دہشت گرد سرحد پار کر کے افغان علاقوں میں پناہ نہ لے سکیں۔ جمشید ایاز نےکہا، ’’ہر چیز کے باوجود ہمیں اپنی کارروائی جاری رکھنا پڑے گی کیونکہ یہ مسئلہ ہوتا ہے۔ میرے خیال میں اب پاکستان طریقے سے کارروائی کرے گا۔ اپنی حکمت عملی بدلے گا، کہ جس طرح یہ اس طرف بھاگ رہے ہیں، یہ نہیں بھاگیں گے کیونکہ اب انہیں خود بلاک کرنا پڑے گا اور کس طرح کریں گے، یہ وہ بہتر جانتے ہیں۔‘‘
پاکستانی دفتر خارجہ کے مطابق پاکستان اور افغانستان نے ایک دوسرے کے تحفظات دور کرنے کے لیے ہر سطح پر دو طرفہ تعلقات کو مضبوط بنانے پر اتفاق کیا ہےتاکہ خطے میں امن و استحکام قائم ہو سکے۔