پاکستانی قبائلی علاقوں میں نئے فضائی حملے، تیس عسکریت پسند ہلاک
21 جون 2014نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق پاکستانی فضائیہ کے جنگی ہوائی جہازوں اور گن شپ ہیلی کاپٹروں سے یہ حملے افغان سرحد کے قریب خیبر ایجنسی اور شمالی وزیرستان کے نیم خود مختار قبائلی علاقوں میں کیے گئے۔
پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ نے بتایا کہ ان ہوائی حملوں کے دوران پہلی کارروائی خیبر ایجنسی میں کی گئی۔ اس علاقے میں افغانستان کے ساتھ سرحد کے قریب عسکریت پسندوں کی دو پناہ گاہوں کو تباہ کر دیا گیا۔ ان حملوں میں دس دہشت گرد مارے گئے۔
دوسری فضائی کارراوئی تین گھنٹے کے وقفے سے شمالی وزیرستان میں حسُوخیل کے علاقے میں کی گئی۔ ان حملوں کے دوران عسکریت پسندوں کی تین پناہ گاہوں کو نشانہ بنایا گیا، جس کے نتیجے میں کم از کم بیس دہشت گرد ہلاک ہو گئے۔ میجر جنرل باجوہ کے بقول یہ تمام ہوائی حملے ایسے علاقوں میں کیے گئے جہاں کوئی سویلین آبادی نہیں تھی۔
ڈی پی اے نے اپنی رپورٹوں میں بتایا ہے کہ پاکستانی فوج کے مطابق قبائلی علاقوں میں گزشتہ قریب ایک ہفتے سے جاری مسلح آپریشن کے دوران اب تک ڈھائی سو سے زائد عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا جا چکا ہے۔ اس دوران عسکریت پسندوں کے ساتھ لڑائی اور مختلف بم حملوں میں آٹھ پاکستانی فوجی بھی مارے جا چکے ہیں۔
شمال مغربی پاکستان میں طالبان عسکریت پسندوں اور القاعدہ کے حامی غیر ملکی دہشت گردوں کے خلاف سکیورٹی فورسز کے اس آپریشن کے باعث اب تک دو لاکھ سے سے زائد مقامی باشندے بھی اپنی جانیں بچانے کے لیے اپنے گھروں سے رخصت ہو چکے ہیں۔
ان عسکری کارروائیوں سے قبل پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت نے کئی ماہ تک پاکستانی طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کی کوششیں بھی کی تھیں۔ یہ کوششیں کئی ماہ تک جاری رہی تھیں لیکن ان کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا تھا۔ اس پر نواز شریف حکومت نے ملکی مسلح افواج کو ان دہشت گردوں کے خاتمے کا حکم دے دیا تھا۔
نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق سکیورٹی فورسز کے اس فضائی اور زمینی آپریشن میں اب تک 280 کے قریب ملکی اور غیر مکی عسکریت پسند مارے جا چکے ہیں۔
اس کے علاوہ متاثرہ قبائلی علاقوں سے دو لاکھ سے زائد جو مقامی باشندے اب تک اپنے گھروں سے رخصتی پر مجبور ہوئے، ان میں سے ہزاروں سرحد پار کر کے افغانستان جا چکے ہیں۔
ایسے نئے مہاجرین کی بہت بڑی اکثریت اب تک صوبہ خیبر پختونخوا کے شہروں بنوں، پشاور اور کوہاٹ میں پناہ گزین ہو چکی ہے۔ ان شہروں میں قبائلی علاقوں سے آنے والے ایسے باشندوں کے لیے کئی رجسٹریشن پوائنٹ اور مہاجر کیمپ بھی قائم کیے جا رہے ہیں۔