اب امریکہ نے بھی پاکستان کی فوجی عدالتوں پر سوال اٹھایا
24 دسمبر 2024پاکستان میں گزشتہ ہفتے، فوجی عدالت نے گزشتہ سال مئی میں پھوٹنے والے فسادات کے دوران فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے کے جرم میں 25 شہریوں کو دو سے 10 سال تک قید کی سزا سنائی تھی۔
یورپی یونین کی طرف سے اس معاملے پر اپنی تشویش کا اظہار کرنے کے ایک دن بعد امریکہ اور برطانیہ نے بھی پاکستان میں فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل اور سزاؤں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
پاکستان، فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کی سزاؤں پر یورپی یونین کو تشویش
امریکی محکمہ خارجہ نے پیر کو کہا کہ امریکہ پاکستان کے حکام پر زور دیتا رہے گا کہ وہ ملک کے آئین میں دیے گئے شفاف ٹرائل کے حق کا احترام کریں۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے ایک بیان میں کہا، "ان فوجی عدالتوں میں آزادئ انصاف، شفافیت اور ضروری عمل کا فقدان ہے۔ امریکہ پاکستانی حکام پر شفاف ٹرائل کے حق اور پاکستان کے آئین کے مطابق انصاف کے عمل کے لیے زور دیتا رہے گا۔"
بیان میں کہا گیا ہے، "امریکہ کو اس بات پر گہری تشویش ہے کہ پاکستانی شہریوں کو 9 مئی 2023 کو ہونے والے مظاہروں میں ملوث ہونے پر ملٹری ٹرائیبونل نے سزا سنائی تھی۔"
فوجی عدالتوں نے نو مئی کے احتجاج میں ملوث پچیس ملزمان کو سزائیں سنا دیں
بیان میں مزید کہا گیا ہے، "امریکہ پاکستانی حکام سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ منصفانہ ٹرائل اور مناسب عمل کے حق کا احترام کریں، جیسا کہ پاکستان کے آئین میں درج ہے۔"
برطانیہ کا بیان
برطانیہ کے دفتر خارجہ کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں بھی فوجی عدالتوں کی جانب سے شہریوں کا ٹرائل کرنے پر تشویش ظاہر کی گئی ہے۔
برطانوی دفتر خارجہ کے ایک ترجمان کی جانب سے جاری بیان کے مطابق برطانوی حکومت ملک میں ہونے والی قانونی کارروائیوں پر پاکستان کی خودمختاری کا احترام کرتی ہے تاہم فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل میں شفافیت اور آزادانہ جانچ پڑتال کا فقدان ہوتا ہے۔
پاکستانی اداروں پر امریکی پابندیاں، اسلام آباد کا ردعمل
ترجمان کا کہنا تھا کہ فوجی عدالتوں میں کارروائی سے منصفانہ ٹرائل کے حق کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اور"ہم حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ شہری اور سیاسی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے کے تحت اپنی ذمہ داریوں نبھائے۔"
یورپی یونین نے کیا کہا تھا؟
اتوار کے روز یورپی یونین نے فوجی عدالت کی جانب سے 25 شہریوں کو دی جانے والی حالیہ سزاؤں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان فیصلوں کو، شہری اور سیاسی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے (آئی سی سی پی آر) کے تحت ان ذمہ داریوں سے متصادم دیکھا جارہا ہے، پاکستان جن کا پابند ہے۔
پاکستان میں یورپی یونین کی سفیر رینی کیونکا نے ایکس پر یورپی یونین کے خارجہ امور کے ترجمان کا ایک بیان شیئر کیا، جس کے مطابق فوجی عدالت کے "یہ فیصلے پاکستان کے بین الاقوامی عہد برائے شہری و سیاسی حقوق(آئی سی سی پی آر) کے تحت کیے گئے وعدوں کی خلاف ورزی کے طور پر دیکھے جاتے ہیں۔"
حکومت اور اپوزیشن کے مابین ’سازگار ماحول‘ میں مذاکرات
آئی سی سی پی آر کے آرٹیکل 14 کے مطابق ہر شخص کو ایک آزاد، غیرجانب دار اور قابل عدالت میں منصفانہ اور عوامی سماعت کا حق حاصل ہے، اور اسے مؤثر قانونی نمائندگی کا حق بھی دیا گیا ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا، "اس کے علاوہ یہ بھی ضروری ہے کہ کسی بھی فوجداری مقدمے میں دیا جانے والا فیصلہ عوام کے سامنے پیش کیا جائے۔"
پاکستان کا جواب
پاکستان دفتر خارجہ کے ترجمان نے فوجی عدالتوں کے حوالے سے یورپی یونین کی تشویش پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا آئین اور عدالتی نظام اندرونی معاملات حل کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں، اور پاکستانی قوم اپنے مسائل کو حل کرنا اچھی طرح جانتی ہے۔
ترجمان نے امریکہ کے بیان کو بھی مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی قوم اپنے مسائل خود حل کرنا جانتی ہے اور آئین میں ہر شہری کے بنیادی حقوق کا تحفظ یقینی بنایا گیا ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر نے ہفتے کو ایک بیان میں بتایا تھا کہ فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے تمام شواہد کی جانچ پڑتال اور مناسب قانونی کارروائی کی تکمیل کے بعد پہلے مرحلے میں ان 25 مجرمان کو سزائیں سنائیں، جو نو مئی 2023 کے پر تشدد واقعات میں ملوث تھے۔
آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ "دیگر ملزمان کی سزاؤں کا اعلان بھی ان کے قانونی عمل مکمل کرتے ہی کیا جائے گا۔"
اس فوجی بیان میں کہا گیا کہ مئی 2023 کی بدامنی کے دوران پاکستان میں ''متعدد مقامات پر سیاسی اشتعال انگیزی، تشدد اور آتش زنی کے المناک واقعات دیکھے گئے۔" اور ''تشدد کی ان صریح کارروائیوں نے نہ صرف قوم کو صدمہ پہنچایا بلکہ سیاسی دہشت گردی کی اس ناقابل قبول کوشش" کو روکنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
ج ا ⁄ ص ز ( روئٹرز، خبر رساں ادارے)