ترکی سے شامی باشندوں کی وطن واپسی
24 دسمبر 2024سال 2011ء میں جب شام میں خانہ جنگی کا آغاز ہوا تھا، تو کئی ملین شامی باشندے اپنی زندگیاں بچانے محفوظ کے لیے وہاں سے ہجرت کر گئے تھے۔ ان میں سے قریب 30 لاکھ شامی باشندے ہمسایہ ملک ترکی میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ تاہم ان کی وہاں موجودگی ترک صدر رجب طیب ایردوآن کی حکومت کے لیے ایک مسئلہ بنی ہوئی ہے۔
شام میں غیرملکی سفارتی سرگرمیوں میں تیزی
کیا بشار الاسد کا زوال ایردوآن کے لیے سُنہری موقع ثابت ہو رہا ہے؟
ترک وزیر داخلہ علی یرلیکایا نے ترکی کی سرکاری خبر رساں ایجنسی انادولو کو بتایا، ''گزشتہ 15 دنوں کے دوران شام واپس لوٹنے والے افراد کی تعداد 25 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ انقرہ حکومت شام کے نئے رہنماؤں سے قریبی رابطے میں ہے اور اس بات پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے کہ شامی مہاجرین کی رضاکارانہ طور پر واپسی کو یقینی بنایا جائے۔ ساتھ ہی انہوں نے اس امید کا بھی اظہار کیا کہ دمشق میں نئے رہنما بہت سے مہاجرین کی گھروں کو واپسی کی اجازت دیں گے۔
علی یرلیکایا کا یہ بھی کہنا تھا کہ شامی دارالحکومت دمشق اور حلب میں موجود ترک سفارت خانے اور قونصل خانے میں 'مائیگریشن آفس‘ قائم کیے جائیں گے تاکہ شام واپس لوٹنے والے شامی شہریوں کا ریکارڈ رکھا جا سکے۔
شام میں سابق صدر بشار الاسد کی حکومت کے ہیئت تحریر الشام (ایچ ٹی ایس) نامی باغی گروپ کی قیادت میں اپوزیشن اتحاد کے ہاتھوں خاتمے کے قریب ایک ہفتے بعد ہی ترکی نے 12 برس کے وقفے کے بعد دمشق میں اپنا سفارت خانہ دوبارہ کھول دیا تھا۔ شامی خانہ جنگی کے آغاز کے عرصے میں ہی شام میں ترک سفارت خانہ بند کر دیا گیا تھا۔
ترک وزیر داخلہ علی یرلیکایا نے انادولو سے گفتگو کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ترکی میں پناہ لیے ہوئے ہر خاندان کو اس بات کا حق بھی دیا جائے گا کہ وہ یکم جنوری 2025 سے جولائی 2025 تک تین مرتبہ ترکی میں داخل ہو سکے گا اور واپس جا سکے گا، اور یہ قواعد صدر ایردوآن کی خصوصی ہدایات پر تیار کیے جا رہے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ترکی سے شام واپس لوٹنے والے شامی باشندے اپنا ساز و سامان اور اپنی کاریں بھی ساتھ لے جا سکیں گے۔
ا ب ا/م م (اے ایف پی، انادولو)